• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان کی انہی ٹیکنیکل ہیرا پھیریوں اور چتر چالاکیوں پر غصہ آتا ہے لیکن درحقیقت یہی ان کی اصل پہچان اور تعارف ہے۔ اس لئے یہ چاہیں بھی تو ان حرکتوں سے باز نہیں آسکتے۔ آپ نے بچھو اور کچھوے کی دوستی والی کہانی تو سنی ہوگی جس کے مطابق کچھوا ہر روز ا پنے دوست بچھو کو اپنی پشت پر بٹھاکر دریا کی سیر کراتا لیکن اس سیر سپاٹے کے دوران بچھو وقفے وقفے سے کچھوے کو ڈنگ مارتا رہتا۔ سخت جان موٹی ڈھال نما کھال والے کچھوے کو بچھو کے ڈنگ سے فرق تو کوئی نہ پڑتا لیکن کوفت بہت ہوتی۔ ایک دن تنگ آکر کچھوے نے بچھو سے پوچھ ہی لیا کہ’’جگر! تم یہ کیا حرکت کرتے ہو؟‘‘ بچھو نے بے نیازی سے جواب دیا’’میں کیا کروں عادت سے مجبور ہوں‘‘ کچھوے کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی اور اس نے جھنجھلا کر گہرا غوطہ لگایا تو بچھو چیخا’’میں تو ڈوبنے لگا ہوں مجھے بچائو‘‘ کچھوا بھنا کر بولا’’بچھو میاں !اگر ڈنک مارنا تمہاری عادت ہے تو تیراکی کے دوران غوطے مارنا میری عادت ہے‘‘۔مختصراً یہ کہ ن لیگ کی عادت ہے کہ ٹیکنیکل طریقوں سے واردات اس طرح ڈالتے ہیں کہ نہ خنجر پر کوئی چھینٹ دکھائی دیتی ہے نہ دامن پر کوئی داغ دھبہ نظر آتا ہے۔ ذرا یہ رپورٹ ملاحظہ فرمائیے جس کی سرخی ہی مان نہیں۔’’میٹرو بس کی تشہیر، تقریبات ا ور انعامات پر کروڑوں خرچ، اشتہاری بجٹ کی بجائے مختلف کھاتوں سے ادائیگیاں‘‘اور اب تھوڑی سی تفصیل۔ میٹرو بس لاہور کی تعمیر کے بعد اعلیٰ حکومتی شخصیات کی تشہیر، خصوصی تقریبات کے انعقاد، افسروں اور ملازمین کو اعزازیئے اور انعامات دینے کے لئے سرکاری خزانے پر کروڑوں روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا جبکہ اشتہاری مہم کے نام سے فنڈز جاری کرنے کی بجائے ادائیگیاں بھی مختلف محکموں اور ضلعی کھاتوں سے کی گئیں۔ سرکاری خزانے سے 15کروڑ 79 لاکھ 77ہزار سے زائد رقم خرچ کی گئی۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے میٹرو بس کی تشہیر کے لئے محکمہ ہائوزنگ اور آئی اینڈ سی کو خصوصی فنڈز جاری کئے۔ اس کے علاوہ ضلعی حکومت، پی ایچ اے و دیگر محکموں سے بھی فنڈز لے کر تشہیری مہم پر خرچ کئے گئے۔قارئین!مزید تفصیلات بھی ہوشربا ہیں لیکن مقصد کسی مخصوص منصوبے یا منصوبوں میں ہونے والی وارداتوں سے آگاہ کرنا نہیں بلکہ اک مخصوص ذہنیت، مائنڈ سیٹ اور رویے کی نشاندہی کرنا ہے۔ اس ملک میں کرپشن کی اتنی قسمیں متعارف کرادی گئیں ہیں کہ گننے بیٹھو تو کمپیوٹر بھی دھواں دینے لگے۔ قانونی سے لے کر غیر قانونی، بالواسطہ سے لے کر بلاواسطہ کرپشن تک ایسے ایسے طریقے’’ایجاد‘‘ ہوئے ہیں کہ سن سمجھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یقین نہیں آتا کہ کوئی انسانی دماغ ایسی شیطانی اختراع بھی کرسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے پورے ملک میں کوئی ایک منصوبہ بھی ایسا نہیں جس کی ’’صحیح لاگت‘‘ کا کسی کو بھی اندازہ ہو۔ ہر منصوبہ طلسم ہوشربا اور میگا قسم کا بھمبل بھوسہ ہے جس کی پیچیدگیاں سمجھتے سمجھتے عمر بیت جائے اور ککھ سمجھ نہ آئے۔ یہی ان کی اصل فنکاری ہے۔ بظاہر مختلف محکموں کے فنڈز کسی اور جگہ خرچ کردینے میں کوئی برائی دکھائی نہیں دیتی کہ کام تو وہ بھی’’سرکاری‘‘ ہی ہے لیکن دراصل یہی غریب ماری، مکاری اور ظلم ہے بلکہ ظلم عظیم ہے۔ کسی کو لاٹھی ،چھری گولی ماردینا نہیں، چیزوں کا غلط استعمال ظلم ہے مثلاً ایش ٹرے کرسٹل یا سونے کی ہی کیوں نہ ہو، آپ اس میں سگریٹ ہی بجھائیں گے، اس میں پانی ڈال کر پینا ظلم کہلائے گا۔ اسی طرح ریفریجریٹر کے خانوں میں کپڑے رکھنا ظلم ہوگا سو میٹرو پر خرچ کرنے کے لئے اگر حکومت صحت، تعلیم، پی ایچ اے یا کہیں اور سے رقم اینٹھتی ہے تو یہ ظلم،زیادتی اور کرپشن کی ہی ایک شکل ہوگی۔حکمرانوں کی ترجیحات ہی بدترین مظالم سے کم نہیں، جس ملک کی ترقی کے ڈھول پیٹے اور پٹوائے جارہے ہیں اس کے زمینی حقائق کی اک معمولی سی ہولناک جھلک یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لئے جو بجٹ موجود ہے وہ ایک کلو میٹر میٹرو یا شاید اورنج ٹرین کی لاگت سے بھی کم ہے۔ محکموں کے بجٹ میں اونچ نیچ، ہیرا پھیری، کاٹا پیٹی ایسی ہی ہے جیسے کسی گھر کی یا کا سربراہ بچوں کی تعلیم کے اخراجات ’’کاٹ‘‘ کر گھر کی تزئین و آرائش پر خرچ کردے یا بجلی کے بلز کی ادائیگی روک کر اس رقم سے ائیر کنڈیشنر خریدلے......ظلم کی اتنی قسمیں متعارف ہوچکیں کہ اب تو گنتی بھی ممکن نہیں رہی۔ کمال یہ کہ اس سارے کھیل کو ترقی اور گڈ گورننس بھی بتایاجاتا ہے۔



.
تازہ ترین