• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 7اسلامی ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے حالیہ صدارتی حکم نامے کو امریکی عدلیہ نے معطل کرتے ہوئے غیر آئینی اور کالعدم قرار دے دیا ہے جبکہ فاضل عدالت کے وفاقی جج جیمز رابرٹس نے حکومتی وکلاء کا یہ موقف بھی مسترد کردیا ہے کہ امریکی صدر کے حکم نامے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا تاہم عدالتی فیصلے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عدلیہ اور فاضل جج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اُنہیں نام نہاد اور مضحکہ خیز جج قرار دیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی کا مقصد امریکہ کو محفوظ ملک بنانا تھا لیکن عدالتی فیصلے کے بعد اگر امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آیا تو اِس کا ذمہ دار جج ہوگا جس نے صدارتی حکم نامہ معطل کیا۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ وہ وفاقی جج کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کریں گے کیونکہ اُنہیں کسی غیر ملکی شخص یا گروہ کو امریکہ میں داخل ہونے سے روکنے کا مکمل آئینی اختیار حاصل ہے جس پر نظرثانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ واضح ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کے بعد 7 اسلامی ممالک سے امریکہ جانے والے 60 ہزار سے زائد مسلمانوں کے ویزے منسوخ کردیئے گئے تھے جن میں کچھ مسلمان، امریکی گرین کارڈ ہولڈر بھی تھے جبکہ شامی پناہ گزینوں کی امریکہ آمد پر غیر معینہ مدت کیلئے پابندی عائد کردی گئی تھی۔ امریکی صدر کے اقدام کے نتیجے میں ہزاروں مسلمانوں کو امریکی ایئرپورٹس پر ہراساں کرکے اُنہیں تضحیک کا نشانہ بھی بنایا گیا جبکہ امریکی ریاست ہیوسٹن میں ایک تاریخی مسجد کو شہید کردیا گیا۔ مسجدوں کو شہید کرنے کا یہ سلسلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران شروع ہوا تھا اور اب تک امریکہ میں قائم کئی مساجد کو نذر آتش کیا جاچکا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کے بعد امریکی قوم منقسم نظر آتی ہے۔ ایک طرف امریکیوں کی بڑی تعداد ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے خلاف قرار دے رہی ہے تودوسری طرف اسلام مخالف ٹرمپ کے حامی صدارتی حکم نامے کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ کو اُس وقت ایک اور دھچکا پہنچا جب امریکہ کی 99 مشہور اور عظیم ایجادات کرنے والی بڑی کمپنیوں جن میں فیس بک، ایپل، گوگل، مائیکروسافٹ اور ٹوئٹر بھی شامل ہیں، نے متحد ہوکر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کمپنیوں کے بیشتر ملازمین غیر ملکی ہیں جن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی تمام تر ایجادات اور ترقی، تارکین وطن کی مرہون منت ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کی تعصب پسندی کا اندازہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک مشہور ویڈیو سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے دوران سیکورٹی اہلکاروں نے ایک مسلمان صحافی کو اس بنا پر تقریب سے دھکے دے کر نکال دیا کہ صحافی نے صدارتی حکم نامے کو اسلام مخالف قرار دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ سے کچھ سوالات پوچھے تھے مگر ٹرمپ نے صحافی کے کسی سوال کا جواب دینا گوارہ نہیں کیا اور سیکورٹی اہلکاروں نے صحافی کو یہ کہہ کر باہر نکال دیا کہ ’’ٹرمپ دور حکومت میں مسلمانوں کو امریکہ سے جانا ہوگا۔‘‘ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ روز قبل واشنگٹن کے اٹارنی جنرل باب فرگوسن کو محض اس بنا پر عہدے سے برطرف کردیا تھا کہ انہوں نے اپنے بیان میں صدارتی حکم نامے کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلامی ممالک پر عائد سفری پابندی امریکہ میں مذہبی تعصب کو جنم دے گی۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 7اسلامی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی عائد کرکے ابتدا میں اپنے حکم نامے پر امریکہ سمیت دنیا بھر میں ردعمل دیکھنا چاہتے تھے جس کے بعد وہ کچھ دیگر اسلامی ممالک پر بھی سفری پابندی عائد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر صدارتی حکم نامے کے خلاف امریکی عدلیہ کے فیصلے اور بڑی امریکی کمپنیوں کی مخالفت کے باعث انہیں اپنے مذموم منصوبوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اقدامات سے امریکیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے شدید مخالف اور ان پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے حق میں ہیں مگر امریکی عدالتیں ان کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں اور وہ عدلیہ کے سامنے بے بس ہیں۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ اسلامی ممالک پر عائد سفری پابندی کے حوالے سے بھارت کی پوری کوشش رہی کہ کسی طرح پاکستان کو بھی امریکی سفری پابندی میں شامل کیا جائے مگر بھارت کو اُس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب وائٹ ہائو س کے ترجمان نے پاکستان پر سفری پابندی عائد کرنے کے حوالے سے تمام تر افواہوں کی سختی سے تردید کی۔ اسلامی ممالک پر سفری پابندیاں عائد ہونے کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ اسلامی سربراہی کانفرنس (OIC) کا اجلاس طلب کیا جاتا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کی مذمت کی جاتی مگر افسوس کہ اس معاملے میں اسلامی ممالک بھی منقسم نظر آئے، شاید اس لئے کہ امریکی پابندی کی زد میں آنے والے ممالک ایران کے اتحادی تصور کئے جاتے ہیں۔ اسلامی ممالک پر امریکی سفری پابندیاں عائد ہونے کے بعدکچھ اطلاعات کے مطابق کویت نے امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے اُنہی 7 اسلامی ممالک کے شہریوں پر ویزے کی پابندی عائد کردی تاکہ ٹرمپ کو یہ کہنے کا جواز فراہم کیاجاسکے کہ اسلامی ممالک خود ان ممالک سے تعلقات رکھنے کے روادار نہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات نے بھی امریکی صدارتی حکم نامے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ’’امریکہ کی نئی انتظامیہ نے ملکی سالمیت کیلئے جو فیصلہ کیا، وہ بالکل درست ہے اور امریکی صدارتی حکم نامے کو اسلام سے نہ جوڑا جائے۔
9/11 واقعہ کے بعد امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی تھی اور اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اسے صلیبی جنگ کا نام دیا تھا لیکن بعد میں عوامی دبائو پر جارج بش نے اپنے بیان کو زبان کی لرزش قرار دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کے بیان کے بعد مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی ابتداہوئی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے مسلمانوں کو ہدف کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد 7 اسلامی ممالک پر حالیہ امریکہ کی سفری پابندی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔ سفری پابندی کا شکار ہونے والے ممالک میں ایران وہ واحد ملک ہے جس نے ردعمل کے طور پر امریکی شہریوں پر بھی سفری پابندی عائد کردی ہے جبکہ دیگر متاثرہ ممالک کی جانب سے بھی اسی طرح کے ردعمل کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا جس سے آنے والے وقت میں امکان ہے کہ امریکہ تنہائی کا شکار ہوسکتا ہے۔ امریکہ کی اعلیٰ عدلیہ اپنے ماتحت عدالتوں کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہےیا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم نامے کے بعد امریکی شدت پسندوں کا متعصب چہرہ اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف چھپی نفرت کی چنگاری کھل کر سامنے آگئی ہے۔



.
تازہ ترین