• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے یہ خبر دی ہے کہ بھارت بڑی تعداد میں اسلحے کی خریداری ہنگامی بنیادوں پر کرنے میں مصروف ہے، اس نے روس، فرانس اور اسرائیل سے تیار حالت میں موجود اسلحہ خریدا ہے اور اُن میں سے کچھ بذریعہ طیارہ بھارت پہنچا دیا گیا ہے اور کچھ فروری میں اور باقی مارچ کے پہلے ہفتے میں بھارت پہنچ جائے گا۔ اِس سامان کی خریداری کیلئے اس نے دو اعلیٰ سطحی بااختیار کمیٹیاں تشکیل دیں جس نے سامانِ حرب کی پڑتال کرکے اسی وقت فیصلہ کیا، چنانچہ انہوں نے 200 بلین ڈالرکے سودے کئے ہیں۔ بھارت نے اسرائیل سے بحریہ کیلئے SAM بارک 8 فضا سے زمین پر مارنے والے میزائل، روس سے S-400 اینٹی بلیسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم، سخوئی 30 ایم کے آئی، میخایان مگ 29 سی، ٹرانسپورٹ طیارے 200 کاموف 226T ہیلی کاپٹر فضا میں تیل بھرنے والے طیارے، مگ 29طیارے اور دیگر حربی سازوسامان کے روس سے 38ملین کے معاہدے کئے، اس کے علاوہ انجنوں اور 125 کلومیٹر اور T-90، T-72 ٹینک، کونکورس اور اینٹی میزائل اور سمیرج راکٹ اور بارود سے بھرے بم خریدے ہیں، ، روس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی کیونکہ وہ اس وقت معاشی طور پر کافی کمزور ہے۔ فرانس سے میراج 2000۔اِس قسم کی ہنگامی بنیادوں پر خریداری نے غیرمعمولی سوال اٹھا دیئے ہیں۔ ایسی کیا ضرورت پڑی تھی کہ بھارت نے ایسی کمیٹیاں تشکیل دیں جو ہنگامی صورت میں بنائی جاتی ہیں، جب جنگ کا خطرہ ہو اور تیار شدہ سامانِ حرب خریدنا بھی اِس بات کی دلیل ہے جیسے اُسے کوئی خوف لاحق ہے۔ اس پر بحث چل پڑی ہے کہ اُس کو خوف لاحق ہے یا وہ خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت میں کہا جارہا ہے کہ ستمبر 2016ء میں اُوڑی حملے کے بعد بھارت نے اِن خریداریوں کا فیصلہ کیا، نریندر مودی نے 2014ء میں اپنے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اپنی فوج کو طاقتور بنائیں گے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو نئی جہت دے رہا ہے کہ پاکستان پر ایکدم کئی سمت سے حملہ کرے اور شدید ترین لڑائی بری، فضائی اور بحری ہو جو 10 دن میں جنگ کی شکل اختیار کرلے۔ اِس کے علاوہ اگر بڑی جنگ ہو تو اُس کے پاس 40 دن کا اسلحہ ہو جس کو وہ بے دریغ استعمال کرسکے۔ 2016ء میں بھارتی مسلح افواج کے سربراہان نے اطلاع دی تھی کہ اُن کے پاس 16 دن سے زیادہ کا اسلحہ نہیں ہے، اس لئے وہ اس کو بڑھا کر 40 دن جنگ کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ پاکستان نے یہ صلاحیت تو 1991ء میں حاصل کرلی تھی تاہم بھارتی تجزیہ نگار ادیتیا بھٹ نے لکھا ہے کہ بھارت خفیہ طور پر جنگ کی تیاری کررہا ہے، اس لئے کہ وہ خفیہ طور پر ہتھیار خرید رہا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس جو ہتھیار آگئے ہیں ان سے بھارت خوفزدہ ہے ، اس لئے ایک بھارتی افسر نے جرمنی کے ہوفنگ پوسٹ کو بتایا کہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلئے بھارت کے پاس زیادہ سے زیادہ اسلحہ ہونا چاہئے۔ بھارت کے دو مصنفین غزالہ وہاب اور پراوین ساوہتی نے ایک کتاب Dragon at the door میں لکھا ہے کہ پاکستان نے اپنے آپ کو فوجی طاقت بنا لیا ہے جس کو تمام دُنیا مانتی ہے جبکہ بھارت نے بھی اپنے آپ کو ملٹری فوج بنایا ہے۔ ان کے نزدیک ملٹری طاقت کے معنی ہیںکہ کوئی فوج فوجی طاقت کوموثر انداز میں اُن اہداف اور اُن جگہوں پر ایسے استعمال کرے کہ دشمن کے دانت کھٹے کردے اور ملٹری فورس کا مطلب یہ ہے کہ ہتھیاروں کو جمع کرنا، اُن کے مطابق پاکستان ملٹری طاقت کے طور پر ابھرا ہے جبکہ بھارت جیو اسٹرٹیجک کھلاڑی نہیں بن سکا۔
جس کا مطلب ہے کہ بھارت بطور ایک اسٹرٹیجک کھلاڑی اپنی صلاحیت، استطاعت اور فوجی اداروں کو اپنی سرحدوں سے آگے لے جانے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ بھارت نے اپنے آپ کو چین اور پاکستان تک محدود کرلیا ہے۔ یہاں کارٹر انتظامیہ کے سلامتی امور کے مشیر برزنسکی جو دانشور اور مصنف بھی ہیںاور جن کی 30 سال تک پالیسیاں امریکہ میں چلتی رہیں نے اپنی کتاب ’’عظیم بساط‘‘ میں لکھا ہے کہ تمام ارضی سیاست میں موجودملک خودبخود ارضی سیاست کے کھلاڑی نہیں بن جاتے اُن کو اس کیلئے کچھ خصوصی کام کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان اور چین نے 2013ء میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا اور 9 اکتوبر 2013ء کو ملٹری سائنس کے ایک چینی اسکالر ہوانگ چنگ نے چین کے اخبار گلوبل ٹائمز میں لکھا کہ چین کو پاکستان کے ساتھ مل کر عالمی نظام بنانا چاہئے، اس کیلئے چین کو پاکستان کے سارے مسائل اپنے بنا لینا چاہئے، چنانچہ میں نے 31 اکتوبر 2013ء کو چین کا نیا عالمی نظام اور پاکستان کے عنوان سے کالم لکھا کہ پاکستان اور چین نئے رشتوں میں بندھ گئے ہیں، اس کا ذکر کرنے پر دونوں مصنفین نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پاک چین تعلقات ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور دونوں کی قربت نے ایک دوسرے سے مل کر اپنی صلاحیت کو نیٹو کی صلاحیت سے بہتر بنا لیا ہے اور بھارت کی پاکستان اور چین ،دو محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت ناکام ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے جنگ نہ کرنے کا خوف مضبوط ہوا ہے، اِن دونوں ممالک کیلئے بحرانوں پر قابو پانا آسان ہوگیا ہے، وہ محاذ اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور طاقتور پاکستانی فوج کو پیپلز لبریشن کی خاموش یا خفیہ حمایت سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ گیاہے۔ اس کے علاوہ چین خاموشی کے ساتھ مگر پاکستان سے مل کر امریکہ کا عالمی سطح پر مقابلہ کررہا ہے تاہم چین بھارت کو بھی اپنے ساتھ ملا کر دونوں کیلئے یکساں کامیابی کی بات کئی برسوں سے کرتا آ رہا ہے۔ روس بھی چین کا ہمنوا ہے، ان مصنفین کے مطابق اگر بھارت آگے بڑھ کر ایک ارضی سیاسی کھلاڑی بننا چاہتا ہے تو اس کا راستہ پاکستان سے جاتا ہے اور اگر وہ چین سے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے تو اس کا راستہ بھی پاکستان سے گزرتا ہے۔ بقول ان مصنفین کے پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے بغیر وہ عالمی ،ایشیا کا کھلاڑی بننا تو کجا جنوبی ایشیا میں بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ اگرچہ بھارت کی مسلح افواج کی تعداد 13 لاکھ اور پاکستان کی افواج صرف 6 لاکھ ہے۔ ہماری رائے میں اگر وہ امن کی راہ پر چلے تو اُسے وہ کچھ مل سکتا ہے جس کا وہ خواہشمند ہے، سوائے پاکستان پر برتری کے حصول کے تاہم دوسرا راستہ جنگ کا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرے جو نہ اُس کے مفاد میں ہے اور نہ وہ ایسا کرسکے گا۔


.
تازہ ترین