• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
احمد جاویدصاحب فرماتے ہیں:
’’جہاں ناسمجھی معیار بن جائے وہاں علم کا کیا کام‘‘
یہ تو میں مانتا ہوں کہ آسٹریلیا جیسی کوئی کوشش اگر پاکستان میں کی جائے تو کتابیں تو دور کی بات جن بکسوں میں وہ کتابیں رکھی جائیں گی وہ بھی غائب ہو جائیں گے۔ یہ ریفرنس میں آسٹریلیا میں ہونے والی اس قابل قدر کاوش کے حوالے سے دے رہا ہوں جہاں ایک خبر یہ بتاتی ہے کہ بچوں میں علم اور پڑھنے کا شوق بڑھانے کےلئے لوگ ایسی چھوٹی لائبریریوں کا شوق بڑھا رہےہیں جس میں لوگ اپنے گھروں کے باہر چھوٹے بکسوں میں کتابیں رکھ دیتے ہیں۔ان گھروں کے قریب رہنے والے دوسرے لوگ اور بچے پڑھنے کے بعد وہ کتابیں واپس رکھ دیتے ہیں اور پھر ان بکسوں کو نئی کتابوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ کیا شاندار کاوش ہے۔ اس پر جتنا بھی خوش ہوا جائے اتنا ہی کم ہے۔
اب آیئے ذرا وطن عزیز کی طرف جہاں کی غربت کے حوالے سے میں نے یہ لکھا کہ اگر ایسی کوئی کوشش یہاں ہو تو شاید کتابوں کے ساتھ بکس بھی غائب ہوجائیں گے۔ یہ صرف اور صرف غربت کی وجہ سے ہے۔ گلوبل انڈیکس یہ کہتے ہیں کہ کم علمی اور غربت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایسے میں کہ جب یونیسیف کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ آئندہ آنے والے برس میں 5لاکھ مزید بچے غربت کی وجہ سے لاغر رہ جائیں گے اور ان بچوں میں سے زیادہ کا تعلق سندھ اور بلوچستان کےعلاقوں سے ہوگا، تو کیا ان حکمرانوں کو جو ایک ایک سڑک کے چار چار بار فیتے کاٹ رہےہیں ،شرم سے پانی پانی نہیں ہو جانا چاہئے۔ ہم متعدد بار اس کا ذکر کرچکے ہیں کہ کس طرح اس وقت کے حکمرانوں کا تمام تر زور ملکی ترقی کےاس حوالے سے ہے جس میں صرف سڑکیں بچھا کر اور میٹرو ٹرین چلا کر عوام کو یہ نویدسنائی جاتی ہے کہ لو دیکھو تمہارے لئے کیا شاندار منصوبہ بنایا ہے۔ اب تم پیدل جوتے چٹخاتے اپنے قریب سے گزرتی موٹروں کی دھول اپنے چہرے پر سجائے مسرت کے گیت گائو۔ تمہارے بچے اگر بھوک سے مر جائیں یا لاغر رہ جائیں تو مایوس نہ ہو چند دن بعد ایک اور فیتہ کٹے گا۔ ایک اور سڑک بنے گی۔ ایک اور میٹرو ٹرین کے لئے کھدائی کا سامان ہوگا۔ ہمارے دوست محمودالحسن کہتے ہیں کہ کاش ایسابھی دن آئے کہ ہمارے حکمران کسی لائبریری کا فیتہ کاٹیں۔ کسی ایسے منصوبے کے لئے اربوں روپے مختص کریں جس سے کروڑوں لوگوں کے لئے تعلیم کا بندوبست ہو، جس سے تھر اور بلوچستان کے غریبوں اور نادار وں کے لئے روٹی کا بندوبست ہو۔میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ سی پیک کے مغربی روٹ کو صرف کاغذوں میں دکھایا جارہا ہے اور یہ کہ اس کے لئے ابھی تک ایک انچ بھی زمین نہیں خریدی گئی لیکن جس تندہی سے ہمارے حکمران صرف پنجاب میں سڑکوں کے جال بچھانےپر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں، جس پنجاب میں نندی پور پروجیکٹ کی قیمت بڑھ کر اب 61ارب سے زائد ہوگئی ہے اسی پنجاب میں بھی کروڑوں لوگ صحت اور تعلیم سے دور ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز کی ہی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ساڑھے پانچ کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس میںاگرچہ بلوچستان اور سندھ کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس میں پنجاب کے بچے بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح سے ایک ایمرجنسی سڑکوں کے جال کے لئے شروع کی جاتی ہے ویسی تعلیم اورصحت کے لئے یاغربت دور کرنےکے لئے کیوں شروع نہیں کی جاسکتی؟
جب ہم یونائیٹڈ نیشنز کی رپورٹ کاذکر کرتے ہیں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ پرائمری ایجوکیشن میں کوالٹی کے لحاظ سے ہم دنیا کے اکثر ممالک سے پیچھے ہیں۔ اس میں اگر ہم کسی سے آگے ہیں تو وہ صرف افریقہ کے قحط زدہ ملک ہیں۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں۔ افریقہ کے ان ممالک میںبچے انگریزی اور حساب کے بنیادی کلیوں سے بھی واقف نہیںہیں۔ ایسی ہی صورتحال پاکستان کےاکثر پرائمری اسکول کے بچوں کی ہے۔ اساتذہ کا معیار اس سے بھی زیادہ پست ہے۔ اور ہماری ہی ایک رپورٹ جوہم نے اپنے پروگرام 50منٹ کے لئے بنائی اس میں اکثرا سکولوں کے اساتذہ بنیادی سوالات کے جواب بھی نہیں دے سکے۔ وہ پڑھائیں گے کیا؟
اس سے ایک سوال ہائر ایجوکیشن کے اساتذہ اور سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے بچوں کے حوالے سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ ان کا معیار بھی حد درجے پست ہے۔ اس درجے میں بتدریج خرابی پیداہو رہی ہے۔ ہر برس لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں آبادی میں اضافہ ہو رہاہے۔ تعلیم سے بے بہرہ خواتین کہتی ہیں کہ وہ نہیں جانتیں کہ بچوں کی تعداد کتنی ہونی چاہئے۔ ان خواتین ہی کے اکثر بچے تعلیم سے دور اور صحت کے حوالے سے ابتر حالت میں ہیں۔ میرا سوال اس حوالے سے پھر وہی ہے کہ جس ڈھٹائی سے حکمرانوں کے نمائندے ٹی وی پر آ کر پاناما لیکس کے حوالے سے جھوٹ بولتے ہیں اسی ڈھٹائی سے وہ حکومتی ترقی کے اعدادو شمار کے حوالے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ جب ملک میں اسی برس 5لاکھ بچوں کے لاغر اور ذہنی طور پر معذور یا کند ذہن رہ جانے کی باتیں سامنے آئیں تو انہیں خود سوچنا چاہئے کہ وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔



.
تازہ ترین