• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جانتا تھا کہ سینکڑوں دفعہ موت سے بچ جانا اس کی خوش قسمتی ہے لیکن قسمت ہمیشہ مہربان نہیں رہتی۔ اسے احساس تھا کہ کسی نہ کسی دن ایک معمولی سی غلطی اس کی جان لے لی گی اور شاید یہی وہ احساس تھا جس کےباعث وہ شادی نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنے کئی شہیدساتھیوں کے بچوں کو جانتا تھا جو اپنے باپ کی شہادت کے بعد بے سہارا ہوگئے۔ وہ اپنے بچوں کو دنیا میں بے سہارا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اس لئے جب بھی اس کی ماں شادی کی بات کرتی تو وہ بڑے ادب کے ساتھ ماں کی اس خواہش کو ٹال دیتا۔ 13فروری کی شام اسے پتہ چلا کہ لاہور میں ڈی آئی جی احمد مبین اور زاہد گوندل سمیت ایک درجن سے زائد لوگ ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئے ہیں تو وہ آبدیدہ ہوگیا۔ احمدمبین نے کئی سال تک کوئٹہ پولیس میں خدمات سرانجام دی تھیں اور اس دوران کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئٹہ شہر کے اندر یا باہر کہیں بم نصب کئے جانے کی اطلاع ملتی تو احمد مبین سب سے پہلے موقع پر پہنچتے اور پھر جب وہ بم کو ناکارہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا تو احمد مبین اسے تھپکی دے کر گلے سےلگاتے۔ کبھی کبھی وہ اپنے اس افسر کے سامنے کوئٹہ کے بم ڈسپوزل یونٹ کے مسائل بیان کرنے کی کوشش کرتا لیکن اس کے ساتھی روک دیتے۔ پھر ایک دن احمدمبین کاٹرانسفر لاہور ہوگیا۔ 13فروری کی شام ان کی شہادت کی خبر سن کر وہ اپنے ساتھیوں کو احمدمبین کی بہادری اورفرض شناسی کے قصے سنانے لگا۔ اس دوران ایک ساتھی نے اسے اطلاع دی کہ کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کے ایک پل پر بم نصب کیا جاچکا ہے۔ وہ کچھ ہی دیر میں بم ڈسپوزل یونٹ کے عملے کے ساتھ سریاب پل پر پہنچا۔ رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا اور بم کو ناکارہ بنانا خطرے سے خالی نہ تھا لیکن اس نے ایک دفعہ پھر خطرے سے کھیلنے کافیصلہ کیا اور حفاظتی لباس کے آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ آ ج قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور 20کلو وزنی بم پھٹ گیا۔ 500سے زیادہ بم ناکارہ بنانے والا یہ بہادر آدمی شہید ہو گیا۔ اس بہادر آدمی کا نام عبدالرزاق تھا جو کوئٹہ میں کمانڈر رزاق کے نام سے مشہور تھا۔ کمانڈر رزاق کے ہمراہ اس کا ساتھی عبدالمجید بھی شہید ہو گیاجس کے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ کی روشنی میں رزاق بم کو ناکارہ بنانے کی کوشش کررہا تھا۔
13فروری کی شام سانحہ لاہور میں پولیس کے دو بڑے افسروں کی شہادت کے باعث کمانڈر رزاق کی بہادری کو میڈیامیں زیادہ توجہ نہیں ملی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ احمد مبین شہید لاہور میں ہوئے لیکن ان کا تعلق بھی کوئٹہ سے تھا اور انہوں نےکوئٹہ میں اپنی تعیناتی کے دوران جرأت و بہادری کی جو داستانیں رقم کیں ان میں ڈی آئی جی فیاض سمبل کا کردار بھی اہم تھا۔ ڈی آئی جی فیاض سمبل 2013میں ایک خودکش حملے میں کوئٹہ میں شہید ہوئے لیکن ان کی تدفین لاہور میں ہوئی کیونکہ وہ لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔ احمد مبین اور فیاض سمبل نے مل کر کوئٹہ میں دہشت گردوں کی کیسے سرکوبی کی یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن جس طرح ان دونوں کی بہادری کے قصے لوگوں کو نہیں پتہ اسی طرح کمانڈر رزاق کی بہادری بھی میڈیاسے مخفی رہی۔ 13فروری کی رات پونے نو بجے کے قریب ٹی وی چینلز پر لاہور دھماکہ زیربحث تھا اور اس دوران یہ خبر آئی کہ کوئٹہ میں ایک بم کو ناکارہ بناتے ہوئے بی ڈی یو کے دو اہلکاربھی شہید ہوگئے۔ بی ڈی یو کوئٹہ کاریکارڈ گواہ ہے کہ کمانڈر رزاق نے اپنی 23سالہ سروس میں 500سے زیادہ بم ناکارہ بنائے اور ایک مرتبہ اپنا کام کرتے ہوئے زخمی بھی ہوا۔ شہادت سے تین دن قبل رزاق نے ایک وکیل امیر حمزہ کے گھر کے باہر نصب ایک 20کلو وزنی بم ناکارہ بنایا۔ اسے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اوربہادری کے باعث پاکستان پولیس میڈل اور قائداعظمؒ میڈل دیاجاچکا تھا لیکن افسوس کہ 23سالہ سروس میں اسے صرف ایک پروموشن ملی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ روزانہ موت سے پنجہ آزمائی کرنےوالے رزاق کو کافی سال پہلے کانسٹیبل سے ہیڈ کانسٹیبل بنایاگیا۔ پھر ایک دن اسے یہ خبر ملی کہ اسے اسسٹنٹ سب انسپکٹر یعنی اےایس آئی بنادیا گیا ہے۔ اس نے اپنی ترقی کی خوشی میںمٹھائی بھی بانٹ دی لیکن کچھ ہی عرصے میں کوئی وجہ بتائےبغیر رزاق کی یہ پروموشن واپس لے کر اسے دوبارہ ہیڈکانسٹیبل بنا دیاگیا۔ اس ناانصافی پروہ چپ نہ رہا اور اس نے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس کے ایک دوست نےمجھے بتایا کہ ایک دفعہ رزاق کو کہا گیا کہ تم کام کرنا چھوڑ دو۔ آرام سے اپنے دفتر میں بیٹھاکرو لیکن رزاق نے جواب دیاکہ وہ تنخواہ کےلئے نوکری نہیں کرتا بلکہ بیگناہ اور معصوم انسانوں کو بارود سے بچانے کے لئے کام کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ٹھیک ہے حکومت نےمیرے ساتھ ناانصافی کی لیکن میرے ساتھی مجھے استاد کہتے ہیں اور میرے شہر کے لوگ مجھے دعائیں دیتے ہیں اس لئے میں اپنا کام نہیں چھوڑ سکتا، میں اپنے لوگوں سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔
یہ صرف ایک کمانڈر رزاق کی کہانی نہیں مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے میری گاڑی کے نیچے لیپ ٹاپ بم نصب کیا گیا تو بم نظر آتے ہی بی ڈی یو والوں کو بلایا گیا۔ بی ڈی یو کے جس جوان نے بم کو ناکارہ بنایامیں نے اس کا شکریہ ادا کیا تو پتہ چلا کہ اسے اپنے مستقل ہونے کا انتظار ہے۔ خیبرپختونخوا میں پچھلے 8سال میں 6ہزار سے زائد بم ناکارہ بنائے جاچکے ہیں اور بی ڈی یو کے کئی اہلکار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں خیبرپختونخوا کا بی ڈی یو کافی بہتر ہوچکا ہے اور اس میں خواتین کو بھی بھرتی کیاگیا لیکن بلوچستان میں بم ڈسپوزل یونٹس پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بی ڈی یوز میں کام کرنے والے اہلکار عام پولیس سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ دوسروں کو بچانےکے لئے اپنی جان روزانہ دائو پر لگاتے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے 17اگست 2016کو بلوچستان کے علاقے نصیر آبادمیں مقامی بی ڈی یو کا اے ایس آئی پنھل خان پٹ فیڈر کینال کے کنارے پر نصب بم کو ناکارہ بناتے ہوئے شہید ہوگیا۔اس کے پاس بھی وردی اور حفاظتی لباس نہیں تھا۔ یہی مسائل عبدالرزاق کو بھی درپیش تھے۔وہ ان مسائل پر بولتا ضرور تھالیکن اس نے کبھی یہ نہ کہا تھا کہ مسائل حل نہ ہوئے تو وہ بم ناکارہ بنانے سے انکارکردے گا۔ وہ آخری وقت تک اپنا فرض ادا کرتا رہا لیکن صوبائی حکومت نے فرض شناسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بہادر رزاق جس عزت افزائی کا مستحق تھا وہ عزت اسے نہیں ملی۔ کیا بعداز شہادت اسے وہ پروموشن واپس مل سکتی ہے جس کا وہ حقدار تھا؟ موت کے بعدتو ہمارے ہیرو کو انصاف دے دو۔

.
تازہ ترین