• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعرات کی رات ہے۔ رات کے گیارہ بجے ہیں ۔ لال شہباز قلندر کے مزار پر خود کش حملے کی اندوہناک تصاویر ہر چینل پر چل رہی ہیں۔ ابھی تک مرنے والوں کی تعداد ستر سے زائد ہو گئی ہے۔ زخمی ہونے والوں کی گنتی ابھی جاری ہے۔ ایمبولینسوں کے سائرن، زخمیوں کی آہ و بکا، لاشوں کے ٹکڑے، زار و قطار روتی ہوئی عورتیں، انتظامیہ کی طبی امداد کی لاحاصل کوششیں ایک بار پھر ہمارا واحد منظر ہو گئی ہیں۔ یہی منظرہمارا ماضی رہا ہے اور سوال صرف اتنا ہے کہ کیا یہی ہمارا مستقبل ہے؟
میری نسل نے تو یہی دیکھا ہے کہ دہشت گردی کا عفریت دہائیوں سے ہمیں چاٹ رہا ہے۔ ہمارے سب منظر لہو لہو رہے ہیں اورہماری آنکھیں ہمیشہ ہی پر نم رہی ہیں۔کچھ سجھائی نہیں دیتا اس ان دیکھی جنگ سے فرار کیسے نصیب ہو،ماتم کی اس رات سے قرار کیسے نصیب ہو۔ایک نسل جوان ہو کر اب بوڑھی ہو رہی ہے۔ لیکن ظلم کا یہ عہد ختم نہیں ہو رہا۔ ہم کس سے گلہ کریں ؟ہم کس کو موردالزام ٹھہرائیں؟ہم کس کو ذمہ دار قرار دیں؟ دہائیاں گزر گئیں اور جرم کو ختم کرنا تو دور کی بات ہم آج تک اپنے مجرم کی شناخت نہیں کر سکے۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ ہم ایسے نہیں تھے۔ ہم ایک زمانے میں بہت پرامن ملک تھے۔ انسانی جان کو اس ارض پاک میں اتنی دشواریاں نہیں تھیں۔ یہاں پردھماکوں کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ خود کش حملوں سے اس ملک میں کوئی واقف نہیں تھا۔اسی ملک میں لوگ ہنستے ، گاتے اور چین کی بانسری بجاتے تھے۔یہاں مذہب کے نام پر اتنی شدت کبھی نہیں تھی۔ فرقے کبھی اتنی شدت سے ایک دوسرے کی جان کے درپے نہیں تھے۔ بندوق صرف محافظوں کے پاس ہوتی تھی۔ سیکورٹی کے اتنے حفاظتی انتظامات کی کبھی ضرورت نہیں تھی۔ بموں کی اتنی قسموں سے ہمارے بچے واقف نہیں تھے۔ خود کش حملہ آور کی ٹانگیں یا سر ملنے سے ہمارے بزرگ بالکل ناواقف تھے۔ کٹی پھٹی لاشیں کبھی بھی ہمارا منظر نہیں تھیں۔ اس زمانے میں لوگ اتنی بڑی تعداد میں اس ارزانی سے کبھی نہیں مرتے تھے۔
سچ بات تو یہ کہ ہم نے نہیں دیکھا لیکن بزرگ بتاتے ہیںکہ یہی وہ ملک ہے جہاں شعر و نغمہ کی بات ہوتی تھی۔ شاعری ، افسانے اور ناول کی کتاب چھپنا بڑی خبر ہوتی تھی۔ یہیں پرفیض ، منیر اور مجید امجد کا چراغ چلتا تھا۔ لوگ علم و فن پر بات کرتے تھے۔ اس وقت سب ہی روشن آراء بیگم ، کجن بائی، نورجہاںاور مہدی حسن کے دل دادہ تھے۔ اس زمانے میںرائٹرز کلب ہوتے تھے، ادبی بحثیں اور مکالمے ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اسکولوں کے بچے خاکی پتلون اور سفید شرٹ کا یونیفارم پہنتے تھے اور کوئی اس میں فرنگیت تلاش نہیں کرتا تھا۔اس زمانے میں عبادت گاہیں بھی تھیں اور تفریح فراہم کرنے والے ادارے بھی۔ کوئی کسی پر زور زبردستی نہیں کرتا تھا۔ لوگ وطن سے عموما محبت کرتے تھے۔ طالبان ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ذرا ذرا سی بات پر فتوے نہیں لگا کرتے تھے۔ظالم کی طاقت سے حکومتیں مرعوب نہیںہوتی تھیں۔مجرم کو سزا ہوتی تھی اور ہر اختلاف کرنے والا غدار یا کافر نہیںکہلاتا تھا۔
ہمیں نہیںمعلوم مگر ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ یہی ملک تھا ، یہی خطہ تھا، یہی لوگ تھے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے بچے ذبح نہیں ہوتے تھے، ہماری اقلیتوں کو نظر آتش نہیں کیا جاتا تھا، ہماری عورتوں پر ہر لمحے بے راہ روی کے الزامات نہیں لگتے تھے۔ ہمارے نمازی آئے روز شہید نہیں ہوتے تھے۔ویلٹائین ڈے ہمارا مسئلہ نہیں تھا۔ دنیا بھر کی کرکٹ ٹیمیں ہمارے ہاں شوق سے کھیلنے آتی تھیں۔ ہم کھیلوں میں نامور تھے۔ کرکٹ ، اورہاکی کے بین القوامی میچ ہونا عام سی بات تھی۔ ہر اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوتا تھا۔ لوگ جیت کا جشن مانتے تھے اور شکست پر دوسروں کے گلے نہیں کاٹتے تھے۔لڑکے لڑکیاں اکھٹے ہونے پر بے حیائی اور فحاشی کا الزام نہیں لگتا تھا۔ پسند کی شادی پر عورتوں کو زندہ جلا دینے کا رواج ابھی معاشرے میں در نہیں آیا تھا۔ اس وقت محبت اتنا بڑاالزام نہیں تھا۔ لوگ محبت کی کہانیاں شوق سے بیان کرتے تھے۔ لوک داستانوں پر یقین رکھتے تھے۔ صوفیاء کرام کی تعظیم کرتے تھے۔ قوالی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ محافل سماع کے دور چلتے تھے۔
لوگ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں پاکستانی رومانی فلمیں بہت اچھی ہوتی تھیں اچھی دھنوں اور گیتوں پر ہمارا بھارت سے مقابلہ ہوتا تھا۔ آئینہ جیسی رومانی فلم پاکستان میں سب سے زیادہ چلنے والی فلم تھی۔ ہمارے موسیقار لاجواب دھنیں بناتے تھے۔ ہمارے گلوکار سر میں گاتے تھے۔ ہماری فلموں اور ڈراموں میں قاتل اور قتل اس شدت سے نہیںہوتے تھے۔ (باقی صفحہ 15پر)
یہ وہ زمانہ تھا جب ہم پر روس کو شکست دینے کا جنون چڑھ گیا تھا۔ اور جس کے لئے مالی امداد امریکہ سے ڈالروں کے صندوقوں میں ہمارے پاس آتی تھی۔جب ہم افغانستان کو اپنا صوبہ بنانا چاہتے تھے۔ جب ہم مہاجرین کو اپنے ملک میں شوق سے بسانے لگے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب ہم نے اپنے بچوں کو اپنی مرضی کے جہاد کی تربیت دی تھی۔ ہر ہاتھ میںبندوق تھمادی تھی۔ میڈیا پر ہر طرح کی پابندی لگا دی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے ترقی کی نفی کے ثمرات کے بارے میں لوگوں کو بتایا تھا۔ جب ہم نے ایک نسل کو قناعت اور غربت کا سبق سکھایا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے سائنس کو شر انگیز مضمون بتایا تھا۔ جدید ایجادات کو کفر قرار دیا تھا۔ یہ اسی وقت کی بات ہے کہ جب ایک ریفرنڈم میں قوم سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ اس ملک میں اسلام کے نفاذ کے لئے اس وقت کے صد ر کی توسیع چاہتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب صد ر پاکستان خود کو امیر المومنین کہلوانا پسند کرتے تھے۔ملکوں کی تاریخ میں کچھ فیصلے کتنے ضرر رساں ہوتے ہیں۔ ایک ڈکٹیٹر کی ہوس اقتدار نے ایک پوری نسل کو تباہ کر دیا۔ ایک ملک کے سماج کو برباد کر دیا۔ ایک معاشرے کے حسن کو دغدار کر دیا۔ ایک خطے کے فنکاروں کو تباہ کر دیا۔ اس ایک دور ظلمت نے جو تباہی پھیلائی ہے اس کے کانٹے ہم اپنی پلکوں سے چن رہے ہیں مگر ظلم کی یہ رات ڈھل نہیں رہی۔ تاریکی کا یہ باب ختم نہیں ہو رہا۔ کون جانے کتنی نسلیں اس گیارہ سالہ دور کا حساب دیں گی؟کتنا لہو اس زمانے کی غلطی کا خراج دے گا؟ کون جانے ؟


.
تازہ ترین