• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خصوصی برائے عالمی یوم مادری زبان ... مادری زبانیں اور انہیں لاحق خطرات…اویس ملک

دنیا بھر میں اکیس فروری اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام مادری زبان کےعالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اور اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کی مادری زبانوں اور بالخصوص اقلیت کی مادری زبانوں کو فروغ دینا ہے۔ اگرچہ آج کل ہمیں مادری زبان کے حوالے سے کچھ پڑھنے سننے کو مل جائے گا مگر چند دن بعد یہ موضوع اپنی معیاد مکمل کر کے دم توڑ جائے گا کیونکہ سب کو صرف مدر لینگوئج ڈے کے موقع پر ہی مادری زبان یاد آتی ہے۔اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ مادری زبان معاشرے کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کر تی ہے اور شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کا سب سے آسان نسخہ مادری زبان کا فروغ ہے لیکن ہمارے ہاں فروغ تعلیم کیلئے بھی انگریزی کا ’’تیر بہدف‘‘ ہی تلاش کیا جا تا ہے۔یورپی تحقیقات کو اپنے معاشرےپر چسپاں کرنے والے ماہرین تعلیم اگلے سو سال بھی اس قسم کے تجربات سے ملک میں شرح تعلیم میں اضافہ نہیں کر سکتے۔حال ہی میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ پنجاب حکومت پرائمری اسکولوں کو انگریزی زبان سے اردو پر منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں کے تجربے کے بعد بالآخر پنجاب حکومت نے جان لیا ہو گا کہ کسی دوسری زبان میں بچوں کو تعلیم دینے کا مطلب انہیں کچھ نہ پڑھانا ہے۔اگر اسمبلی ممبران کی بات کی جائے تو موجودہ اسمبلی یہ منظر بھی دیکھ چکی ہے کہ جب قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اس قرارداد پر بحث شروع کی کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کو سرکاری طور پر قومی زبانیں تسلیم کرنا چاہئے تو وزیر اعظم کی معاون خصوصی ماروی میمن اجلاس کا بائیکاٹ کر کے چلی گئی تھیں۔ اگرپڑوسی ممالک کا جائزہ لیا جائے تو بھارت میں 22 زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے جبکہ ہمسایہ ملک افغانستان میں پشتو کے ساتھ ساتھ فارسی کو بھی قومی شناخت میں برابر کا حصہ دار تصور کیا جاتاہے۔رہی بات زبان کو رائج کرنے کی تو اٹھارہویں ترمیم میں جہاں بہت سے بنیادی اختیارات صوبوں کی جانب منتقل ہوئے ہیں وہیں تعلیم کی ذمہ داری بھی صوبوں کو ہی تفویض کی گئی ہے مگر سوائے صوبہ سندھ کے ، کسی بھی صوبے میں اس حوالے سے کوئی قابل ذکر اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔ پنجاب میںتو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیںکہ ایک دفعہ صوبائی اسمبلی کے رکن ’فضل راہی‘کو محض اس بات پر اسپیکر نے اسمبلی سے بے دخل کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنی تقریر ا پنی زبان میں کی تھی۔ ہم نے آج علاقائی زبانوں کو آج ایک دشنام بنا دیا ہے۔حالانکہ جب تک برطانیہ میں لاطینی زبان نافذ رہی، خواندگی کی شرح بہت کم تھی، پھر جب فرانسیسی کا نفاذ ہوا تو اس شرح میں کسی قدر اضافہ ہوا مگر جب جب انگریزی کو اپنایا گیا تب ہی سو فیصد شرح خواندگی کے بظاہرناممکن گو ل کو حاصل کیا گیا۔اس ایک طریقہ کار سے جہاں شرح خواندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے وہیں مادری اور علاقائی زبانوں کو لاحق خطرات کو بھی کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباًسات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے نصف کے وجود کو معدومیت کے شدید خطرات لاحق ہیں اور ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر ہرچندہفتوں میں ایک زبان متروک ہو رہی ہے۔اسی طرح یونیسکو کے مطابق 1950ء سے اب تک کم از کم 230زبانیں نا پید ہو چکی ہیں جنہیں اب کوئی بولنے والا نہیںہے اور اب بھی دنیا میں تقریباً 2500مقامی زبانوںپر معدومیت کا خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے۔ پاکستان جو کہ ایک کثیر اللسان خطہ ہے ، وہ بھی اس خطرے سے باہر نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں کم از کم69زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں جبکہ صر ف خیبر پختونخوا میں تقریباً 28زبانیں رائج ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بدلتے دور اور رواجوں کے ساتھ ان زبانوں کی بقا کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھائے جا رہے۔چند سال قبل اقوام متحدہ نے زبانوں کی معدومیت کے حوالے سے پاکستان کو 28ویں نمبر پر رکھا تھاکیونکہ اسے بھی شمالی علاقہ جات، خیبر پختونخوا،کشمیر، بلوچستان اور افغانستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں بولے جانی والی زبانوں کے ختم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے۔ زبانوں کی معدومیت میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں مقامی زبانوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، کوئی ایسا سافٹ وئیر تیار نہیں کیا گیا جس میں ان زبانوں کو ٹائپ کیا جا سکے۔ پھر نوجوان نسل میں اس زبان کو سیکھنے کا رواج بالکل ناپید ہو چکا ہے کیونکہ یہ زبان مقامی ، قومی یا عالمی سطح پر قطعاً کسی کےکام کی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان زبانوں کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں اورزبان متروک ہونے کی پہلی علامت زبان کے حروف تہجی سے لاعلمی ہے۔اگر یہ روش یونہی برقرار رہی تو اگلی چند دہائیوں تک ایسی ساری زبانیں قصہ پارینہ بن جائیں گی۔

.
تازہ ترین