• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ آفتاب احمد خان شیرپائو بھی کئی حوالوں سے روایتی سیاستدان ہیں لیکن دہشت گردی کا جس جوانمردی اور بہادری کے ساتھ انہوںنے اور ان کے خاندان نے سامنا کیا ،اس کی وجہ سے ان کا نام پاکستان کے بہادر ترین سیاستدانوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ نصف درجن سے زیادہ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں معجزانہ طور پر بچ جانے کے باوجود وہ ایک لمحے کے لئے منظر سے غائب نہیں ہوئے ۔ ایک خودکش حملے میں تو ان کے بیٹے مصطفیٰ شیرپائو شدید زخمی ہوئے جبکہ ان کے برادرنسبتی اور پختونخوا پولیس کے فخر صفت غیور تو جان بھی قربان کرگئے۔ ان کا حلقہ انتخاب مہمند ایجنسی سے متصل ہے لیکن وہ بلاناغہ وہاں آتے جاتے ،غمی شادی میں شریک ہوتے اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کرتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کئی الزامات اور روایتی سیاست کے باوجود گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی لہر کے ہوتے ہوئے وہ اپنے حلقے میں جیتنے کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اسمبلی میں دس نشستیں جیتنےمیں کامیاب ہوگئے ۔حالانکہ اس انتخاب میں پی ٹی آئی کی لہر اور مینجمنٹ کی وجہ سے ا ے این پی جیسی جماعت صرف پانچ اور جماعت اسلامی جیسی جماعت صرف سات اور پیپلز پارٹی جس کا کسی زمانے میں خود آفتاب شیرپائو بھی حصہ تھے، صرف پانچ نشستیں جیت سکیں۔ پی ٹی آئی کو اگرچہ اکثریت حاصل تھی لیکن وہ تنہا حکومت نہیں بناسکتی تھی چنانچہ جماعت اسلامی، ترکئی گروپ اور آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی کو اپنا اتحادی بنا لیا حالانکہ آفتاب شیرپائو ماضی میں پرویز خٹک کی طرح پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا حصہ رہے تھے اور ان کی جماعت کے رہنمائوں کو بھی کرپشن کے الزامات کا سامنا تھا۔ اتحادیوں کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور وزیراعلیٰ ان کی وزارتوں میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن کچھ عرصہ بعد کے پی حکومت اسلام آباد سے ڈکٹیشن کے ذریعے چلانے کی کوششیں زور پکڑ گئیں۔ شیرپائو صاحب اور ان کے ساتھیوں کو چونکہ حکمرانی کا تجربہ تھا ، اس لئے وہ اپنی وزارتوں میں اسی طرح پی ٹی آئی کے مرکز کی مداخلت کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ چنانچہ پی ٹی آئی کی قیادت نے ان سے جان چھڑانے کی ٹھان لی اور قومی وطن پارٹی کے وزرا پر کرپشن کے الزامات لگا کر انہیں حکومت سے الگ کردیا۔ خود جلسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں عمران خان صاحب کہتے رہے کہ قومی وطن پارٹی کے وزراء نے کرپشن کا بازار گرم کررکھا تھا ۔ بعض جگہوں پر تو انہوں نے یہ الفاظ بھی استعمال کئے کہ انہوں نے لوٹ مچارکھی تھی ۔پی ٹی آئی کی پالیسی سازی پنجاب اور کراچی کے لیڈروں کے ہاتھ میں ہے لیکن دھرنوں میں ڈنڈے کھانے کا کام پختون کارکنوں سے اور مخالفین کو بے عزت کرنے کا کام پختونخوا کی پی ٹی آئی سے لیا جاتا ہے ۔ چنانچہ آفتاب شیرپائو اور ان کی جماعت کے خلاف مراد سعیداور شہریارآفریدی وغیرہ کو میدان میں اتارا گیا۔ وہ مختلف ٹاک شوز میں گلے پھاڑ پھاڑ کر الگ کئے جانے والے قومی وطن پارٹی کے وزراء کو کرپٹ ثابت کرتے اور جواب میں وہ ثبوت مانگتے رہے ۔ بہر حال قومی وطن پارٹی الگ ہوگئی اور پھر دھرنوں کے دوران کنٹینر پر کھڑے ہوکر عمران خان صاحب نے تکرار کے ساتھ آفتاب شیرپائو کے بارے میں بھی وہی لہجہ استعمال کیا جو وہ میاں نوازشریف ، مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے بارے میں استعمال کرتے تھے ۔ستم ظریفی یہ تھی کہ نہ تو پی ٹی آئی کی حکومت نے قومی وطن پارٹی کی وزرا کے خلاف اپنے صوبائی احتساب کمیشن میں کوئی ریفرنس دائر کیا ، نہ قومی احتساب بیورو میں اور نہ صوبائی اینٹی کرپشن نے ان کے خلاف کسی تحقیق کی زحمت گوارا کی ۔ الٹا قومی وطن پارٹی کے معزول ہونے والے وزیر بخت بیدار خان نے پشاور ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا ۔ دھرنوں کے نتیجے میں رسوائی ہوئی ۔ پی ٹی آئی دوبارہ اسمبلیوں کی طرف متوجہ ہوئی ۔ بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو جماعت اسلامی کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے کیونکہ جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات کے دران پرویز خٹک پر بدعنوانیوں کے الزامات لگائے۔ یہ وہ وقت تھا جب پی ٹی آئی کی قیادت کی صفوں میں جماعت اسلامی سے جان چھڑانے کی سوچ پیدا ہوئی۔ اس تناظر میں دوبارہ آفتاب شیرپائو کی جماعت ضرورت بن گئی چنانچہ وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے اپنے سابقہ باس یعنی آفتاب شیرپائو کی منتیں شروع کردیں کہ وہ دوبارہ حکومت میں شامل ہوجائیں ۔ آفتاب شیرپائو پہلے تو نہیں مان رہے تھے لیکن جب منت ترلا بہت بڑھ گیا تو انہوں نے دو شرائط رکھ دیں ۔ ایک تحریری معاہدے کی اور دوسری یہ شرط کہ پی ٹی آئی کی قیادت جرگہ کی صورت میں ان کے گھر آئے گی ۔ چنانچہ پی ٹی آئی نے دونوں شرائط پوری کردیں ۔ تحریری معاہدے کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک ان کے گھر جرگہ بنا کر گئے اور نتیجتاً قومی وطن پارٹی دوبارہ پی ٹی آئی کی اتحادی بن گئی ۔ لیکن پشاور ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف بخت بیدار خان کے ہتک عزت کا کیس چلتا رہا ۔ عمران خان کی وکلا ٹال مٹول سے کام لیتے اور تاخیری حربے استعمال کرتے رہے لیکن بخت بیدار خان دھن کے پکے نکلے ۔ وہ عدالت میں کیس کی پیروی کرتے ہوئے موقف اپناتے رہے کہ یا تو عمران خان معافی مانگیں اور یا پھر الزام ثابت کردیں ۔ چنانچہ اب خان صاحب اور ان کی جماعت کے رہنمائوں نے بخت بیدار کی منتیں شروع کردیں ۔ آخر میں یہ راستہ نکالا گیا کہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا وفد ان کے گھر جاکر معافی مانگ لے گا اور وہ اپنا کیس واپس لے لیں گے ۔ چنانچہ گزشتہ روز پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر ،پی ٹی آئی کے صوبائی وزراء اور رہنمائوں کا جرگہ لے کر بخت بیدا رکے گھر واقع چکدرہ جاپہنچے ۔ بخت بیدار نے وہاں اپنے سینکڑوں حامیوں کو جمع کیا تھا۔ ان سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر اور صوبائی وزرانے عمران خان کی طرف سے بخت بیدار سے معافی مانگی ۔ پھر بخت بیدار نے حاضرین سے پوچھا کہ کیا وہ یہ جرگہ قبول کرکے عمران خان کو معاف کرنے کیلئے تیار ہیں تو سب نے ہاں میں جواب دیا اور یوں بخت بیدار نے اعلان کیا کہ انہوں نے بھی عمران خان کو معاف کردیا ۔ یہ ہے تبدیلی کی سیاست کی ایک جھلک اور اسی لئے میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ سیاست کے سینے میں دل پہلے سے نہیں تھا لیکن جب سے پی ٹی آئی میدان میں آئی ہے ، اس کی آنکھ میں شرم اور حیا بھی نہیں رہی ۔

.
تازہ ترین