• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر کو مداخلت سے آزاد کرا سکتی ہے

اسلام آباد (انصار عباسی) پاناما کیس کی صورت میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو حکومت سمیت ہر بیرونی مداخلت اور دبائو سے آزاد کرائے جس طرح بھارتی سپریم کورٹ نے دو دہائیاں قبل اسی صورتحال کا سامنا کرنے پر کیا تھا۔ جس طرح بھارتی سپریم کورٹ نے بھارت کے سب سے بڑے تحقیقاتی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کے معاملے میں کیا تھا وہ مثال ہمارے پاس ایک بہترین کیس اسٹڈی کی صورت میں موجود ہے جو نہ صرف پاکستان کی موجودہ صورتحال کے عین مطابق ہے بلکہ ادارہ سازی کا بہترین دستیاب طریقہ کار بھی ہے۔ آج پاکستان کو جس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے جس مجیں نیب اور ایف آئی اے نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ اس معاملے میں وزیراعظم کے اہل خانہ کے ارکان شامل تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرکے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ 90ء کی دہائی میں بھارتی سی بی آئی کرپشن کے سنگین معاملے میں کچھ اعلیٰ سرکاری شخصیات کیخلاف کارروائی نہیں کر رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ میں معاملے کی اعلیٰ شخصیات کیخلاف الزامات کی تحقیقات کیلئے درخواستیں دائر کی گئیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سامنے بنیادی سوال یہ تھا: آیا یہ معاملہ جوڈیشل جائزے کے دائرۂ اختیار میں ہے اور کیا کوئی ایسا معاملہ موثر انداز سے تحقیقات شروع کرانے کے قابل ہے جو ایگزیکٹو کے کنٹرول میں ہو؟ اس سارے معاملے میں توجہ اس بات پر تھی کہ کیا اس صورتحال کا عدالتی علاج ممکن ہے؟ لیکن جیسے جیسے کیس آگے بڑھتا گیا اس میں جوڈیشل ریویو کی آئینی اسکیم کے تحت ایسے طریقہ کار میں جدت کی باتیں ہونے لگیں جن کے تحت عدالت کی مداخلت کی اجازت دی جائے تاکہ مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکے۔ اس کیس نے قانون کے مطابق ایک طریقہ کار تشکیل دینے میں مدد دی تاکہ اسی طرح کی صور تحا ل میں ایسی کوئی کارروائی شروع کی جا سکے۔ کچھ افراد کی جانب سے عوامی مفاد کا دعویٰ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں، بھارتی سپریم کورٹ نے ایسا فیصلہ سنایا جس نے سی بی آئی کو آزاد اور اسے ریاست کا کرپشن کیخلاف موثر ادارہ بنانے میں مدد دی۔ تفصیلات یہ ہیں کہ 25؍ مارچ 1991ء کو ایک شخص اشفاق حسین لون، جس پر دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے کا الزام تھا، کو گرفتار کیا گیا۔ اس سے تفتیش کے نتیجے میں سی بی آئی نے ایک شخص سریندر کمار جین، اس کے بھائیوں، رشتہ داروں اور کاروباری شخصیات کے گھروں پر چھاپے مارے۔ سی بی آئی نے اس دوران غیر ملکی کرنسی، دو ڈائریاں، دو نوٹ بُک برآمد کیے۔ ان میں کئی ایسے افراد کو بھاری ادائیگیاں کیے جانے کا علم ہوا جن کے ان بُک اور ڈائریوں میں دستخط موجود تھے۔ یہ دستخط کئی حکومتی اور غیر حکومتی سینئر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے دستخط سے ملتے جلتے تھے۔ چونکہ سی بی آئی نے اس معاملے پر زیادہ کارروائی نہ کی اسلئے سپریم کورٹ میں عوام مفاد کے دعوے کے تحت 4؍ اکتوبر 1993ء کو آئین کے آرٹیکل 32؍ کے تحت درخواستیں دائر کی گئیں۔ درخواستوں میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ سی بی آئی اور ریونیو جیسے سرکاری اداروں نے اپنے فرائض اور قانونی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی حد یہ ہے کہ یہ ادارے ’’جین ڈائریز‘‘ کی برآمدگی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق تحقیقات کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ ان ڈائریز کی برآمدگی سے دہشت گرد گرفتار ہوئے اور انہیں خفیہ اور غیر قانونی انداز سے مالی معاونت کیے جانے اور فنڈز ’’حوالہ‘‘ کے ذریعے منتقل کیے جانے کا انکشاف ہوا؛ اس کے نتیجے میں سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور جرائم پیشہ افراد کی ملی بھگت کا انکشاف ہوا، یہ جرائم پیشہ افراد غیر قانونی ذرائع سے پیسے وصول کر رہے تھے، اس صورتحال کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سی بی آئی اور دیگر سرکاری ایجنسیاں اس معاملے کی تحقیقات میں ناکام ہوگئیں، اس معاملے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکیں اور جرائم میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام ہوگئیں اور یہ سب بظاہر اُن لوگوں کو بچانے کیلئے کیا گیا جو بااثر اور طاقتور ہونے کے ساتھ اس معاملے میں ملوث تھے؛ یہ معاملہ سامنے آنے سے عام افراد کی زندگیوں میں اعلیٰ سطح پر پائی جانے والی کرپشن اور جرائم کا انکشاف ہوا؛ یہ ملکی سالمیت، تحفظ اور معیشت کیلئے نقصان دہ صورتحال ہے؛ عوام کے تحفظ، قانون کی بالادستی، جمہوریت کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی قانونی ذمہ داریاں اور فرائض پر کاربند رہتے ہوئے ہر اس شخص کیخلاف کارروائی کریں جو کرپشن میں ملوث ہو چاہے اس کا تعلق سیاست کی کسی بھی سطح سے کیوں نہ ہو۔ ان درخوا ستو ں کی بنیاد پر بھارتی سپریم کورٹ نے مقدمہ سنا اور 1997ء میں اپنا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں مختلف سمتوں کا تعین کیا گیا تھا جن میں سے کچھ یہ ہیں: ** سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) کو قانونی حیثیت دی جائے۔ سینٹرل ویجیلنس کمشنر کے عہدے پر تقرر وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اپوزیشن لیڈر پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے کیا جائے۔ اس عہدے پر ایسے شاندار ریکارڈ کے حامل سرکاری ملازمین میں سے کسی ایک کو مقرر کیا جائے جس کی ساکھ بہترین ہو۔ تقرر کیلئے نام کابینہ کمیٹی کے روبرو پیش کیا جائے۔ تقرر کی منظوری کمیٹی کی سفارشات کے مطابق صدر مملکت کریں گے۔ یہ اقدام فوری طور پر کیا جائے۔ ** سینٹرل ویجیلنس کمیشن اس بات کا ذمہ دار ہوگا کہ سی بی آئی بہترین انداز سے اپنا کام انجام دے۔ اگرچہ سی بی آئی کی کارکردگی کی ذمہ داری اور اس کے اقدامات کی جوابدہی حکومت پر ہوگی لیکن اسی وقت سی بی آئی کی کارکردگی کا جائزہ اور اسے بامقصد بنانے کیلئے ایک میکنزم تشکیل دینا ہوگا اور اس مقصد کیلئے سینٹرل ویجیلنس کمیشن سی بی آئی کی کام کاج کی نگرانی کے اختیارات دیئے جائیں۔ سی بی آئی جن معا ملا ت کی بھی تحقیقات کرے گا اُن کے اسٹیٹس، تحقیقات میں ہونے والی پیشرفت اور مختلف مقدمات میں پیش کی جانے والی چارج شیٹس اور دیگر معلومات کے حوالے سے وہ سینٹر ل ویجیلنس کمیشن کو رپورٹ پیش کرے گا۔ سینٹرل ویجیلنس کمیشن ایسے تمام کیسز کا جائزہ اور نظرثانی کرے گا جو سی بی آئی کی جانب سے سرکاری ملازمین کیخلاف اُن معاملات میں کارروائی کی منظوری کیلئے پیش کرے گا جو اب تک زیر التوا ہیں، بالخصوص ایسے معاملات جن میں کارروائی کیلئے اجازت نہیں ملی یا ان پر لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ ** مرکزی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرے گی کہ سی بی آئی موثر انداز میں کام کرے اور موثر انداز سے غیر جانبدار ادارہ بن کر فعال کردار ادا کرے۔ ** سینٹرل ویجیلنس کمیشن کا ایک علیحدہ ادارہ ہوگا جو نگران ادارے کی حیثیت سے سی بی آئی کی کارکردگی کے حوالے سے سالانہ رپورٹ مرتب کرے گا۔ ** سی بی آئی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تقرر کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس کے سربراہ سینٹرل ویجیلنس کمشنر ہوں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری (پرسونیل) کمیٹی کے ارکان ہوں گے۔ بہترین انتخاب کیلئے موجودہ ڈائریکٹر کی رائے بھی مد نظر رکھی جائے۔ کمیٹی سینیارٹی، ساکھ اور تحقیقات اور انسداد کرپشن کے شعبے میں تجربے کی بنیاد پر انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) کے افسران کا ایک پینل تشکیل دے جس میں سے حتمی انتخاب کابینہ کی تقرری کمیٹی (اپائنٹمنٹس کمیٹی آف کیبنیٹ) کرے گی۔ اگر آئی پی ایس افسران کے پینل سے بہترین انتخاب سامنے نہیں آتا تو ایسی صورت میں وجوہات کی فہرست مرتب کی جائے اور نیا پینل تشکیل دیا جائے جس میں سے نئے ڈائریکٹر کا انتخاب کیا جائے۔ ** سی بی آئی کے ڈائریکٹر کے عہدے کی مدت دو سال ہوگی چاہے اس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کوئی بھی ہو۔ اس سے موزوں افسر کا انتخاب ممکن ہو سکے گا اور وہ صرف اس وجہ سے منتخب ہونے سے نہیں رہ جائے گا کہ اس کی ریٹائرمنٹ میں دو سال سے کم عرصہ رہ گیا ہے۔ ** موجودہ ڈائریکٹر سی بی آئی کا ٹرانسفر چونکہ ایک غیر معمولی صورتحال ہوگی اور اس میں ان کی جانب سے مزید اہم ذمہ داری سنبھالنا شامل ہوگا، اسلئے یہ منظوری انتخابی کمیٹی (سلیکشن کمیٹی) سے لی جائے۔ ** ڈائریکٹر سی بی آئی کو ایجنسی میں کام کے ایلوکیشن کی مکمل آزادی ہوگی اور وہ اپنی مرضی کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے سکیں گے۔ ڈائریکٹر کی جانب سے کسی بھی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کی تبدیلی تحقیقات کے عمل میں بہتری اور ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر کی جائے اور اس کی وجوہات بھی ریکارڈ کی جائیں۔ ** سی بی آئی کے جوائنٹ ڈائریکٹر تک کے عہدوں پر تقرر اور عہدے میں توسیع جیسے معاملات ایک بورڈ کے ذریعے کیے جائیں جس کے ارکان میں سینٹرل ویجیلنس کمشنر، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری (پرسونیل) ہوں گے جبکہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر ضروری معلومات فراہم کریں گے۔ جوائنٹ ڈائریکٹر تک کے عہدوں کی قبل از وقت تبدیلی یا ان کے عہدوں میں توسیع کے معاملات اسی بورڈ کے ذریعے نمٹائے جائیں۔ صرف جوائنٹ ڈائریکٹرز کے عہدے تک کے افسران کے تقرر اور توسیع کے معاملات کی منظوری کابینہ کی تقرری کمیٹی (اپائنٹمنٹس کمیٹی آف کیبنیٹ) سے حاصل کی جائے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں سی بی آئی کرپشن اور جرائم کی روک تھام کیلئے ریاست کے ایک آزاد اور موثر ادارے کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا۔ 2003ء میں ایک اور کیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے کوئلے کے اسکینڈل کی تحقیقات میں اُس وقت کے وزیر قانون اشوینی کمار کی مداخلت کو مسترد کر دیا اور 1997ء کے فیصلے کو یاد دلایا جس سے وزیراعظم، جن کے پاس سی بی آئی کے معاملات کے حوالے سے انتظامی اختیارات ہیں، تک کو واضح پیغام ملا کہ وہ مداخلت نہیں کر سکتے۔ اِس فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے 1997ء کے وِنیت نارائن کے ایجنسی کو بیرونی مداخلت سے بچانے کے حوالے سے جین حوالہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بینچ کے سربراہ جسٹس آر ایم لودھا کا کہنا تھا کہ ’’عدالت نے یہ دیکھا کہ اگرچہ وزیر اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وہ اس بات کی نگرانی کریں گے کہ سی بی آئی ایک فعال ادارہ ہے اور ان کے پاس ادارے کے کام کرنے اور بورڈ کو پالیسی ہدایات دینے کے اختیارات ہیں اور ان کے پاس یہ بھی اختیارات ہیں کہ ایجنسی کی زیر کارروائی کسی بھی کیس کی معلومات حاصل کریں لیکن ان میں سے کوئی بھی اختیار ایسا نہیں جو متعلقہ وزیر کو کسی بھی کیس کی تحقیقات اور پراسیکوشن میں مداخلت کی اجازت دے سکے۔‘‘
تازہ ترین