• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں ایک اور ملٹری آپریشن ’’ ردالفساد ‘‘ شروع ہو چکا ہے ۔ پنجاب میں رینجرز نے بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے اور وہاں سندھ کی طرح رینجرز کو خصوصی اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کی صورت میں پیرا ملٹری فورسز پہلے ہی سے کارروائیاں کر رہی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نئے ملٹری آپریشن کا پاکستان کے عوام اور سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خیر مقدم کیا ہے ، مخالفت نہیں کی ہے ۔ یہ صورت حال اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ ملک کی سویلین اتھارٹی دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی یا دہشت گردوں نے سویلین اتھارٹی قائم نہیں ہونے دی ہے اور یہ بات تشویش ناک ہے ۔
گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران ملک بھر میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے ہیں ۔ دہشت گردوں نے ان مقامات کو نشانہ بنایا ہے ، جہاں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے ۔ مزارات ، بازاروں اور ریلیوں پر حملے کئے گئے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص کہیں بھی محفوظ نہیں ہے ۔ بڑے شہروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ سیکورٹی اداروں کو لمحہ لمحہ الرٹس جاری کئے جا رہے ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ تشد اور بدامنی کی اس فضا میں جو بات ضروری محسوس ہو رہی تھی ، وہ آپریشن ’’ رد الفساد ‘‘ کے آغاز سے پوری ہوگئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں میں توسیع پر بھی رضا مندی ظاہر کر دی ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا کہنا یہ ہے کہ آپریشن ’’ ردالفساد ‘‘ کا فیصلہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہوا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا یہ کہنا درست ہے کہ آپریشن ردالفساد کا پتہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے ہوا ۔ جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تھا تو اس کا پتہ بھی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے چلا تھا ۔ یہ بہتر نہیں ہوتا کہ وزیر اعظم خود کھڑے ہو کر اس آپریشن کا اعلان کرتے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ۔
آپریشن ردالفساد کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ باقی دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا ۔ اب تک ہونے والے آپریشنز کی کامیابیوں کو یقینی بنایا جائے گا اور سرحدوں پر سیکورٹی کے انتظامات سخت کئے جائیں گے ۔ اس آپریشن میں مسلح افواج کے ساتھ ساتھ پیرا ملٹری فورسز ، انٹیلی جنس ایجنسیز اور سویلین فورسز بھی حصہ لیں گی ۔ نیا ملٹری آپریشن اگرچہ موجودہ حالات میں ناگزیر نظر آتا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ سویلین حکومتیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں برابر کی ذمہ دار ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی اپنی سطح پر دہشت گردی اور دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ کو ختم کرنے کے لئے واضح لائحہ عمل مرتب کرکے دے دیا گیا تھا ۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر اپیکس کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی تھیں ۔ ان اپیکس کمیٹیوں کے اجلاسوں کی صدارت وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کرتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سویلین حکومتوں کو کرنا تھا اور ملٹری اور پیرا ملٹری آپریشنز کے باوجود بظاہر سویلین اتھارٹی موجود تھی ۔
سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات خصوصاً فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشنز کئے جا رہے تھے ، ان کی حکمت عملی طے کرنے میں سویلین اداروں کو فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں تھی ۔ پنجاب واحد صوبہ تھا ، جہاں وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی پالیسیوں پر بہت حد تک عمل درآمد ہوتا تھا ۔ دیگر صوبوں کی طرف سے یہ آواز اٹھائی جاتی تھی کہ پنجاب میں آپریشن نہیں ہو رہا ۔ دیگر چھوٹے صوبوں میں بے رحمانہ آپریشن ہو رہا ہے اور وہاں کی سیاسی قیادتوں سے پوچھا بھی نہیں جا رہا ۔ پنجاب حکومت پر یہ بھی الزام لگایا جا تا تھا کہ وہ انتہا پسندوں کے لئےنرم گوشہ رکھتی ہے ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان پر بھی بہت اعتراض ہوا ، جس میں انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیموں اور فرقہ ورانہ تنظیموں میں فرق ہے ۔ بہت سی فرقہ ورانہ تنظیموں کو پنجاب میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی اجازت تھی لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں صورت حال تبدیل ہو جائے گی ۔ آپریشن ’’ ردالفساد ‘‘ کا فوکس پنجاب ہو گا ، جہاں رپورٹس کے مطابق دہشت گردوں کے زیادہ ٹھکانے ہیں ۔ پنجاب میں بھی سویلین اتھارٹی کا پہلے والا تاثر نہ صرف قائم نہیں رہے گا بلکہ پنجاب کی سیاسی حرکیات بھی تبدیل ہو گی ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملٹری آپریشنز ناگزیر ہونے کے باوجود سیاسی حکمت عملی اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ ملٹری آپریشنز سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔ دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ اور ماحول کو ختم کرنے کے لئے سیاسی قوتوں اور سویلین حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔ سیاسی قوتیں اگر یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ساری ذمہ داری سیکورٹی اداروں پر ڈال دیں اور دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں وہ خود گہرے پانیوں میں نہ اتریں تو وہ غلطی پر ہیں ۔ سب کچھ سیکورٹی اداروں پر ڈال دیا گیا تو پھر اس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے ۔



.
تازہ ترین