• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے کا معروضاس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ سپریم کورٹ میں محفوظ کر دیئے فیصلے کے اعلان سے ملکی سیاست پر کس نوعیت کے اثرات ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کے خیال میں عام انتخابات کے انعقاد میں ایک سال کا عرصہ رہ گیا ہے اور یہ عرصہ عام طور پر بے شمار تبدیلیوں اور نظریاتی تبادلوں کا عرصہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں اقتدار سے فاداری فائدہ مند سمجھی جاتی ہے اور اقتدار کے مفاد میں لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں یہ بہت زیادہ ردوبدل کا عرصہ ہوتا ہے۔اس ایک سال کے عرصہ میں دکھائی دیتا ہے کہ عام لوگ کون سی ابھرتی ہوئی سیاسی لہر کا ساتھ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ کون سی سیاسی پارٹی ایوان اقتدار میں داخل ہونے کی اہمیت رکھتی ہے، اقتدار کا لطف اٹھانے والے سب سے زیادہ لوگ کس پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ معروضی حالات میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والی پارٹی برسراقتدار مسلم لیگ نون ہی ہوسکتی ہے۔ ایک خیال تھا کہ ماضی قریب میں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی ایوان اقتدار میں اپنی اپنی باری لیتی رہیں گی مگر اس دوران تحریک انصاف نے ملکی سیاست میں تیسری لہر پیدا کی اور ایک خاص طبقے کی توجہ حاصل کرنے کی وجہ سے تحریک انصاف ملک کی تیسری طاقت کے طور پر منظر عام پر آگئی جس کی وجہ سے دیگر تمام سیاسی جماعتیں اور پارٹیاں کچھ پیچھے ہوگئیں اور خاص طور پر مذہب کے نام پر اقتدار کی سیاست کرنے والوں کو شدید نقصان پہنچا۔ یہاں تک کہ عام لوگوں کو مختلف سیاسی قوتوں کو ملا کر کولیشن حکومت بنانے کا خیال نہ رہا۔اس صورت حال میں یہ توقع ابھرتی دکھائی دیتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ان کی نظریاتی وجود کو زیادہ اہمیت دی جائے گی جو جماعت عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کا منشور پیش کرے گی اسے عوامی مقبولیت اور الیکشن میں کامیابی حاصل ہوگی۔ اس صورت میں انتخابات لڑنے والی جماعتوں کے منشورات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے مگر مسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف تحریک انصاف کی مہم صرف ایک بددیانتی اور کرپشن کے خلاف ہی چلا رہی ہے اور اس سیاست کی کاربند اور پابند ہے جو کہ کرپشن اور بددیانتی پھیلانے کی ذمہ دار بتائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف ایک نکتے پر مشتمل منشور ملک کے غریب اور محتاج طبقے کی وجہ اور ہمدردی حاصل کرنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہے اور ضمنی انتخابات سے پتہ چلتا ہے کہ سیاست میں تحریک انصاف کا کوئی فیصلہ کن وجود نہیں بن سکا مگر اگلے سال کی سیاسی صورت حال اور سیاست دانوں کے کردار سے پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ عوامی توجہ حاصل کرنے میں کامیابی کس جماعت کو حاصل ہورہی ہے۔عام طور پر یہ توقع پیدا کی جارہی تھی کہ بے نظیر بھٹو کے فرزند بلاول بھٹو زرداری پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد اپنی سیاست صفوں میں بیداری اور شعور کی ایک نئی لہر پیدا کریں گے مگر بعض معقول نوعیت کی تبدیلیوں اور تقرریوں کے باوجود یہ لہر کچھ نمایاں ہوسکی لیکن سیاسی حالات میں آنے والی تبدیلیوں کے لئے کسی بھی وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے بعض اوقات بہت مختصر عرصے میں نمایاں سیاسی انقلاب کی کوشش کی جاسکتی ہے مگر عام انتخابات سے ایک سال پہلے کے معروض میں مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی اہمیت کو نظر اندازکرنا ممکن نہیں ہوگا اور مستقبل کا اقتدار ان تینوں پارٹیوں میں تقسیم ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔



.
تازہ ترین