• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم پر اللہ تعالیٰ کا عتاب و عذاب نازل ہوگیا ہے کہ ہم نے قرآن، حدیث کے احکامات کو بالکل نظرانداز کردیا ہے۔فرقہ پرستی عروج پر ہے اور جھوٹ، بے ایمانی، رشوت ستانی سرکاری پالیسی بن گئی ہے، اخلاقی قدریں زمیں بوس ہوگئی ہیں۔ نہ اخبار پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور نہ ہی ٹی وی دیکھنے کو، دونوں صرف دہشت گردی کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ آج میں اسی لئے دو بالکل غیرمتعلقہ واقعات و معلومات پر مبنی یہ کالم آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ پہلا واقعہ ترکوں کی اسلام دوستی و محبت پر مبنی ہے۔
(1) مسجد نبوی کی تعمیر۔
لوگ تاج محل کو محبت قرار دیتے ہیں مگر یقین کریں کہ عثمانی دور میں مسجد نبویﷺکی تعمیر تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ہے، ذرا پڑھئے اور اپنے دلوں کو عشق نبیﷺ سے منور کریں۔ ترکوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انہیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکا ر ہیں، اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ہر علم کے مانے ہوئے لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا گیا جس میں اطراف عالم سے آنے والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا، اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ہوا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ خلیفہ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا، وہ نئے شہر میں آیا اور ہر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذہین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھائے کہ اسے یکتا و بیمثال کردے، اسی اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بنائے گی۔ دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رہا۔ 25 سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتائے روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھا، یہ لگ بھگ 500 لوگ تھے۔ اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں، تختے حاصل کئے گئے، اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا۔ یہ سارا سامان نبی کریمﷺکے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لئے مدینہ منورہ سے دور ایک بستی بسائی گئی تاکہ شور سے حضور اکرام ﷺکی بارگاہ کی بے ادبی اور مدینہ منورہ کا ماحول خراب نہ ہو، نبیﷺ کے ادب کی وجہ سے انہیں حکم تھا اگر کسی کٹے پتھر کو اپنی جگہ بٹھانے کے لئے چوٹ لگانے کی ضرورت پیش آئے تو موٹے کپڑے کو پتھر پر تہہ بہ تہہ یعنی کئی بار فولڈ کرکے رکھیں پھر لکڑی کے ہتھوڑے سے آہستہ آہستہ سے چوٹ لگائیں تاکہ آواز پیدا نہ ہو اور اگر ترمیم کی ضرورت ہو تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جائے وہاں اسے کاٹ کر درست کیا جائے۔ ماہرین کو حکم تھا کہ ہر شخص کام کے دوران باوضو رہے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ روضہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد غبار اندر روضہ پاک میں نہ جائے، ستون لگائے گئے کہ ریاض الجنۃ اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے۔ یہ کام پندرہ سال تک چلتا رہا اور تاریخ عالم گواہ ہے ایسی محبت ایسی عقیدت سے کوئی تعمیر نہ کبھی پہلے ہوئی اور نہ کبھی بعد میں ہوگی۔
اِسلام سے ترکوں کی محبت کا ایک اور شاہکار حُمس میں حضرت خالد بن ولید ؓ کا مقبرہ ہے، بہت ہی خوبصورت ہے۔ میں وہاں گیا تھا۔ اس کے علاوہ استنبول میں حضرت ابوایوب اَنصاری ؓ کا مزار بھی قابل دید ہے۔
(2) دوسری اہم بات ہمارے نصابِ تعلیم میں تبدیلی کے بارے میں ہے۔ میرے عزیز دوست فضل ہادی حسن نے اُوسلو، ناروے سے مجھے روانہ کیا ہے۔ یہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں کہ عوام اس خطرناک اقدام کے بارے میں کمربستہ ہو کر احتجاج کریں یا اہل اقتدار کی توجہ اس پر مبذول کرائیں۔
USCIRF پاکستانی نصاب پر رپورٹ (متحدہ امریکہ کا کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی)
محترم و مکرم محسن اعظم پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب۔
السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اللہ تعالیٰ سے آپ کے ایمان و صحت کی سلامتی کے لئے دعا گو ہوں۔
گزشتہ دنوں یہ رپورٹ نظروں سے گزری تو ایک طرف پریشانی بڑھی کہ پاکستان کے دینی مدارس کے بعد نصاب تعلیم کے خلاف مغربی ادارے پروپیگنڈا مہم شروع کرنے کی تیاری کررہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں موجود ’’این جی اوز‘‘ اور سول سوسائٹی کے نام پر کس طرح ان کا ساتھ دےرہے ہیں۔ اس پر مستزاد قومی معاملات میں باقاعدہ مداخلت بلکہ ’’اثرانداز‘‘ ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ رپورٹ چند ماہ قبل ایک امریکی ادارے کی ہے (متحدہ امریکہ کا کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی) یو ایس کمیشن ان انٹرنیشنل ریلیجینس فریڈم 1998، (USCIRF ) جس کے لئے پاکستان کی ایک این جی اونے امریکی حکومت کو پاکستان کے قومی نصاب تعلیم کے حوالے سے جو تجاویز دی ہیں، حد درجہ گمراہ کن ہیں۔ ان میں سے صرف ایک تجویز پیش خدمت ہے۔۔ ’’اسلام کا بطور واحد ’’صحیح ایمان‘‘ ہونے کو درسی کتب سے ختم ہونا چاہئے‘‘۔
نیز نصاب میں موجود ’’اسلامی عقیدہ پر زور‘‘ پر بھی تنقید کرتے ہوئے ’’جنگ و تشدد کی ستائش‘‘ کا الزام لگایا ہے۔ رپورٹ کے صفحہ 17 پر لکھا ہے
’’جنگ اور تشدد کی ستائش گریڈ کی تمام سطحوں کی نصابی کتب میں بار بار ابھرتا رحجان جنگ اور جنگ کے ہیرو کی ستائش پر بہت زور دیتا ہے۔ خاص طور پر، محمد بن قاسم اور سلطان محمود غزنوی کے 17 مشہور حملوں سے سندھ کی فتح کو بہت فخر کے ساتھ ہر نصابی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ برصغیر میں تہذیب کے آغاز کے طور پر ان دو واقعات کا اجاگر کرنا جبکہ فن، فن تعمیر، اور ثقافت کےارتقاء کا درسی کتب میں نظر انداز کیا جانا ایک اہم مسئلہ ہے۔ آزادی کے بعد کی تاریخ میں، بھارت کے ساتھ جنگوں پر زور دیا گیا ہے اور امن اقدامات کی مثالوں کو بڑی حد تک نظرانداز کیا گیا ہے جس کا نتیجہ پیچیدہ تنازع پر غیر متوازن تاریخی گفتگو ہے۔ یہ تنگ نظر قوم پرستی سب سے زیادہ سطحی انداز میں پاکستانیوں کو صرف تعلیم دینے کے کام کو پورا کرتی ہے۔‘‘
مزے کی بات اس این جی او کی جڑیں اب پاکستان کے بعض دینی مدارس کے اندر گہری ہوتی جارہی ہیں اور باقاعدگی سے مدارس میں اپنی سرگرمیاں سر انجام دے رہی ہیں۔ میں نے مذکورہ این جی او کی ویب سائٹ پر کچھ ایکٹیوٹیز دیکھ کر اندازہ لگایا کہ انہوں نے ہمارے مدارس اور علماء کرام کو باقاعدہ ہدف بنا رکھا ہے۔
اگر ممکن ہو تو اس رپورٹ پر ایک نظر ضرور ڈال لیجئے گا۔ اور اگر سمجھتے ہیں کہ واقعی کچھ غلط ہے تو ذمہ دار اداروں اور افراد کو اس حوالے سے ضرور متوجہ کیجئے یہ سب کاقومی اور دینی فریضہ ہے۔ یہ رپورٹ انگلش اور اردو میں امریکہ سے شائع ہوئی ہے۔ انٹر نیٹ پر اسی نام سے موجود ہے۔
(USCIRF پاکستانی نصاب پر رپورٹ (متحدہ امریکہ کا کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی۔
امید ہے اس حوالے سے آپ اپنی ذمہ داری ادا کریںگے۔
شکریہ
فضل ہادی حسن…اوسلو، ناروے


.
تازہ ترین