• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعلی ٰبلوچستان نواب ثنا اللہ زہری نے گزشتہ دنوں گوادر کی بطور ونٹر کیپیٹل حیثیت بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تمام صوبائی محکموں کو یہاں دفاتر قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے سی پیک کے تناظر میں اس فیصلے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ گوادر مستقبل میں پاکستان کا تجارتی مرکز ہو گا اسلئے صوبائی حکومت کے اہم دفاتر کے قیام سے نہ صرف یہاں جاری ترقیاتی منصوبے تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے اور درکار انتظامی سہولتیں بھی بروقت فراہم ہو سکیں گی۔ گزشتہ دو سال سے مسلسل قوم کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری گیم چینجر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ صرف ایک منصوبے کا نام نہیں بلکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا نسخہ ہے۔ یہ صرف پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو ہی یقینی نہیں بنائے گا بلکہ یہ سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی اور ہمالیہ سے بلند پاک چین دوستی کو ایک تزویراتی شراکت داری میں بھی تبدیل کر دے گا۔نشیب و فراز سے ہوتی یہ راہداری جہاں سے گزرے گی اپنے پیچھے کامیابیوں کی ایک داستان رقم کرتی جائیگی۔ کاریڈور کے نام سے معروف یہ منصوبہ پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں کیلئے کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ پاکستان کے دوردراز علاقوں کو ترقی یافتہ شہروں سے جوڑنے والا یہ بندھن ملکی تجارت میں اربوں ڈالر کا اضافہ کردیگا۔ سی پیک روزگار کی تلاش میں انتہا پسندی کی طرف بھٹکنے والے نوجوانوں کیلئے امید کی کرن بن جائیگا۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے تمام سوتے پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے گوادر سے پھوٹیں گے۔ وہی گوادر جو خلیج اومان پر واقع اور خلیج فارس کے دہانے کو چھو رہا ہے۔ وہی گوادر جہاں گہرے پانی کی عظیم بندرگاہ بننے کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اسی غیر معمولی حیثیت کی وجہ سے گوادر مشرق وسطی، افغانستان،وسط ایشیائی ریاستوں او یورپ تک پہنچنے والا نزدیک ترین راستہ فراہم کرے گا۔ اسی گوادر کی بندرگارہ کو سی پیک کے تحت خطے کا اہم ترین گیٹ وے بنانے کیلیے ایسی جدید ترین بندرگاہ میں تبدیل کیا جائے گا جہاں دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔ صرف ایک ہفتے میں 1ہزار تجارتی کنٹینر شاہراہ قراقرم کے ذریعے اس بندرگاہ تک پہنچیں گے۔ 100ملین ٹن سالانہ کارگو کی استعداد کار والی بندرگاہ 300 سے 400 ملین ٹن کارگو سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کر لے گی۔ اسی گوادر سے ملحقہ دو ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبےپر ٹیکس فری زون بنے گا۔ رواں سال کے آخر تک گوادر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں مختلف منصوبوں پر 1 ارب ڈالرخرچ کئے جا چکے ہوں گے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت گوادر میں ایسٹ بے ایکسپریس وے بنے گی۔ نیو گوادر انٹر نیشنل ائر پورٹ تعمیر کیا جائے گا۔ پانچ ملین گیلن پانی کی ٹریٹمنٹ کیلئے پلانٹ نصب کیا جائے گا۔ شہر کو پانی کی ترسیل کے اقدامات کئے جائیں گے۔ گوادر میں ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل سینٹر قائم کیا جائے گا۔ تین سو بستروںپر مشتمل پاک چین فرینڈ شپ اسپتال بنایا جائے گا۔ ٹیکس سے چھوٹ کیلئے فری زون ہو گا۔ نئی برتھ اور چینلز کی تعمیر کی جائے گی، گوادر ا سمارٹ پورٹ سٹی بنے گا۔ اسٹیل اور کیمیکل سمیت دیگر صنعتیں قائم کی جائیں گی۔ گوادر یونیورسٹی کو جدید تعلیمی ادارہ بنایا جائیگا۔ ماہی گیری کو ترقی دی جائے گی،کشتی سازی اور مرمت کی صنعت کوفروغ دیا جائے گا۔ کوئلے سے چلنے والا 300 میگاواٹ کا پاور پلانٹ لگایا جائے گا۔ غرض گزشتہ 15 سال سے نظر انداز بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر آئندہ 13 سال میں دبئی اور سنگا پور میں تبدیل ہو جائے گا۔
یہ ہے تصویر کا ایک رخ جو گزشتہ دوسال سے وفاقی حکومت فخریہ انداز میں پیش کر رہی ہے لیکن وہیں اسی تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جس میں قارون کے اسی خزانے کو گوادر کی مقامی آبادی سے بھی چھپایا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں کی خوف کے مارے نیندیں اڑ چکی ہیں کہ دبئی اور سنگا پور میں تبدیل ہوتے ساحلی شہر گوادر میں ان کی جھونپڑیوں کی جگہ کہاں ہو گی۔ ماہی گیری کے ذریعے اپنا اور اہلخانہ کا پیٹ بھرنے والے اسی فیصد لوگوں کو پریشانی ہے کہ سیکورٹی کے باعث گوادر جیٹی تک ان کی رسائی ختم ہونے کے بعد وہ اپنی چھوٹی کشتی کو کس پانی میں اتاریں گے۔ اپنے ہی گھر میں بتدریج اجنبی بننے والے مقامی بلوچوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں کہ وہ اپنی شناخت کو کیسے قائم رکھ پائیں گے۔ ان کے خدشات دور کرنے والا کوئی نہیں ہے جو انہیں دلاسا دے سکے کہ کارپوریٹ سرمایہ کاروں کے ان کی علاقے میں داخل ہونے کے بعد میخوں اور کیلوں سے مرمت شدہ ان کی بھدی کشتی مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں ہو گی۔ کوئی ان بلوچوں کوہرگز یہ بتانے کیلئے تیار نہیں کہ ماہی گیری کا واحد ذریعہ معاش ان سے چھن گیا تو وہ اپنی اور اہلخانہ کی سانسوں کی ڈوری کیسے قائم رکھ پائینگے۔ پینے کے پانی کی تلاش میں ننگے پاؤں میلوں سفر کرنیوالے گوادر کے باسیوں کوکوئی منصوبہ ساز یہ سمجھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا کہ خشک ہوتے پانی کی فراہمی کے واحد ذریعے آکڑہ ڈیم کا متبادل کیا ہو گا۔ مقامی حکومت کے کارپرداز بھی پانی کی بوند بوند کو ترستے اپنے غریب بھائی بندوں کیلئے تسلی کے دو بول بولنے کے روادار نہیں کہ ہزاروں روپے کی ادائیگی سے بندرگاہ پر لائے جانیوالے واٹر ٹینکروں میں ان کا بھی کوئی حصہ ہے۔ اللہ کے ان بندوں سے کوئی پوچھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ ان کی رضا کیا ہے۔ کوئی ان کے دکھ کا مداوا کرنے کو تیار نہیں کہ ان کے بچے تعلیم کی نا گفتہ بہ صورتحال کے باعث روایتی تعلیم کے حصول سے تو محرم ہیں ہی لیکن ان کے علاقے میں سینکڑوں کی تعداد میں کام کرتے چینیوں سے علیک سلیک کیلئے چینی زبان سیکھنے کا حق بھی پنجاب کے بچوں کا ہی کیوں ہے۔ انہیں کسی طور تشفی نہیں دی جاتی کہ گوادر کے واحد اسپتال میں کوئی گائنا کولوجسٹ نہ ہونے کے باعث ان کی خواتین نئی زندگی جنم دینے کے دوران خود موت کو گلے لگانے پر مجبور نہیں ہوں گی۔ اکیسویں صدی میں بھی طاق میں دئیے جلا کر روشنی حاصل کرنے والوں کو کوئی یہ خوشخبری دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ ایران سے درآمد کی جانے والی بجلی یا کوئلے سے قائم کئے جانیوالے پاور پلانٹ سے نکلنے والی روشنی کی کرنیں ان تک بھی پہنچیں گی۔ بڑھتی ہوئی جائیداد کی قیمتوں کے باعث ملک بھر کے پراپرٹی ڈیلرز کے نرغے میں گھرے بلوچوں کو یہ یقین دہانی بھی نہیں کرائی جا رہی کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین اور سر سے گھاس پھونس کی چھت کوئی نہیں چھینے گا۔ سی پیک کے جس گیم چینجر میں ان کے رہن سہن،بودو باش جیسی بنیادی سہولتوں کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں ہے وہاں گوادر اور اس کے نواحی علاقوں میں رہائش پزیر تین لاکھ بلوچوں کی تہذیب اور ثقافت کے تحفظ کی یقین دہانی کون کرا سکتا ہے۔ ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ گوادر کو چاہئے ونٹر کیپیٹل بنائیں یا سمرٹورسٹ پوائنٹ لیکن مقامی آبادی کے تحفظات سے صرف نظر نہ کیا جائے کیوں کہ پاکستان سے چین تک 3200 کلومیٹر پر محیط سی پیک کی تصویر کا پہلا رخ یقیناً بہت بھلا اور خوشنما ہے لیکن اگر اس تصویر کے دوسرے رخ پر نظر نہ ڈالی گئی اور اسے بروقت نہ سنوارا گیا تو پہلے رخ کے رنگ بھی دھندلا جائیں گے۔

.
تازہ ترین