• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ انسانیت انسانی رویوں سے عبارت ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا و تاریخ ،معاشروں اور ادوار کے عروج و زوال کی داستانیں، بنیادی طور پر انسانی رویوں سے ہی تشکیل پاتی ہیں۔ معلوم تاریخ کے کتنے ہی افرادکے انفرادی رویئے ایسے بنے اور ان کا کھلا اظہار بھی ہوا کہ ظلم و جور میں جکڑے مقہور معاشروں میں تنہا آواز حق نے حق کاپرچم بلند اورباطل کا پردہ چاک کیا۔ یوں آنے والی صدیوں کے لئے مثال بن گئے۔ تاریخ بتاتی ہے ان کا یہ قابل رشک رویہ امر ہو کر آنے والی صدیوں کے لئے تبدیلی کا سنہری حوالہ بن جاتا ہے ، جس سے مطلوب تاریخ سازی ہوتی رہتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلزپارٹی کی تشکیل، اس کا عروج تا موجود زوال پذیری کی 42سالہ تاریخ میں کتنے ہی مدوجزر ہماری ملکی سیاسی تاریخ کا بہت دلچسپ اور اسباق سے بھرپور باب ہے۔ خاکسار پاکستان کی اس نسل میں سے ہے جس نے پی پی کی موجودہ تاریخ کو لمحہ لمحہ رقم ہوتے دیکھا اور اس سے بے حد سیاسی شعور حاصل کیا۔ پیپلزپارٹی کاسب ہی کچھ تو سامنے ہے، اس کا سب اچھا اور سب برا، کامیابیا ں اور ناکامیاں، اس کی صداقتیں اور حماقتیں۔ اس پس منظر میں ہم(خاکسار) سدا کے پی پی مخالف ٹھہرے۔ آج بھی ہیں، شکر الحمد للہ کسی تعصب سے نہیں مکمل دلائل اور اخلاص کے ساتھ۔ اس عظیم تاریخی سیاسی جماعت کے خلاف بہت لکھا اور بولا، لیکن اسے مکمل خلوص اور جذبے سے تولا، کبھی کفر نہ بکا۔ تحقیق تو نہ کی محتاط انداز یہ ہی ہے کہ ہمارے سیاسی شعور اور ابلاغی کردار کے حاصل میں غالب پی پی اور اس کی حکومتوں پرتنقید ہی ہوگی، تاہم اس پارٹی کےساتھ جڑے اٹل حقائق کو کبھی جھٹلایا نہیں اور جہاں ہونی چاہئے تھی تائیدو حمایت میں بخل نہ کیا۔ خدا جانتا ہے کبھی یہ نہ چاہا کہ پی پی ڈوب جائے اور تباہ وبرباد ہو جیسا کہ اسے یہ کچھ کرنے میں اس کے ٹاپ بینی فشریز نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہمیشہ یہ مانا خصوصاً سقوط ڈھاکہ کے بعد کہ تاریخی اور قومی سطح و مزاج کی دونمبر ہی سہی، مسلم لیگ کااصل مخالف و مقابل بھی ایک قومی، عوامی اور وفاقی جماعت کو ہی ہوناچاہئے جو بعداز بھٹو پی پی کے نااہل اور محدود ذہن کے قائدین کے ’’سندھ کارڈ‘‘پلے کرنے کےباوجود جماعت پر ہی رہی۔ یہ خدشہ ہمیشہ رہا کہ پی پی کا خاتمہ مسلم لیگ کی قیادت کو ’’مرز ایار‘‘نہ بنادے۔ شکر خدا کا یہ کام اللہ نے خان اعظم سے لیا کہ مملکت یکسر گمراہ بھی ہو جائے، یہاں کوچہ سیاست ’’مرزایار‘‘ کے حوالے نہیں کیاجاسکتا۔ آمروں کی چڑھائی اور شکل ہے۔ وگرنہ بچے پاکستان کی بیمار سیاست میں بھی یہاں ’’مرزا یار‘‘ کوئی بنا نہ بن پائےگا۔ پی پی بیمار اور اب لاغر ہوتی جارہی ہے تو عمران خان کی مزاحمت مثالی بھی ہے اور مطلوب بھی کہ’’مغل اعظم‘‘ نہیں چلے گا۔ نہیں چل رہا۔ ایک کے بعد ایک مسلسل چیک اور اب کڑا اور بڑا۔رہی ڈوبتی پی پی، پارٹی کے اندر تو یہاں بھی زردار قیادت ’’مغل اعظم‘‘ بھی ہے اور ’’مرزا یار‘‘ بھی لیکن قومی سطح پر نہ بن سکی۔ اب جب پارٹی میں انتہا ہوگئی تو اللہ نے بچوں کو اسی زردار گھرانے میں جو عوام کے نعرے بلند کرکے ان کے مال حلال پر اصلاً زردار ہوا، اللہ تعالیٰ نے ماںسے محروم کئے گئے بچوں کو ہمت و حوصلے سے نواز کر بڑا ہی نہیں کیا، اس گھر میں پل کر بھی ان کی نیکی مری نہیں۔ یہ بچیوں کا اپنا ضمیر، اپنی سوچ اور اپنی نیکی ہے کہ عوام کے مال سے نام کے زردار خاندان کو حقیقی معنوں میں زردار اور بے پناہ زردار بننے والے خاندان میں تبدیل ہونے والے خاندان میںپرورش پا کر سیاسی شعور آتے ہی صدائے موسیٰ بلند کردی۔
گلی گلی شور ہے کہ ضمیر والی بیٹیوں نے ابا کو غلط کرنے سے روک دیاہے۔ بختاور جو قبیلے کی زرداری ہے، نے سیاسی نہ ہوکر بھی بھٹو ساسیاسی کھیل کھیلا ہے۔ پی پی کے سابق انکل، لوٹا سیاست میں یکتا اور اسٹیٹس کو سیاست کے شاہکار عرفان اللہ مروت کی پی پی میں پھر شمولیت کے ارادوں (بلکہ اعلان) میں حائل ہوگئی۔ خبروں کے مطابق انہوں نےابا کی قبولیت کے خلاف اپنی مزاحمت کو سوشل میڈیا پر پبلک کرکے مروت کی شمولیت روکنے کے لئے سیاسی بند باندھ دیا ہے۔ شنید ہے کہ بختاور کو چھوٹی بہن آصفہ کی جرأت مندانہ تائید بھی حاصل ہوگئی ہے۔ گویا پی پی کے سب انکل ہار گئے۔ کئی بڑے محترم بھی، زرداری کی بیٹیوں نے ثابت کیا ہم ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی بیٹیاں ہیں۔ شاید معصوم بیٹیوں کے اس مجاہدانہ اقدام سے پارٹی کے اندر ’’مرزا یار‘‘ اور گزری واری ((2019-13کا ’’مغل اعظم‘‘ بھی نہ ’’مرزا یار‘‘ رہے نہ دوبارہ ’’مغل اعظم‘‘ بنے۔
خاکسار قارئین کو یاد دلاتا ہے کہ جب 2014میں وزیراعظم محمد نواز شریف نےاپنی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کو ارب ہا روپے کی ’’یوتھ لون اسکیم‘‘ کا سربراہ بنایا تھا تو ’’آئین نو‘‘ میں اس اقدام سے اختلاف کرتے ہوئے واضح کیا گیا تھا کہ جناب وزیراعظم کا بیٹی کو سیاست و حکومت میں لانا اور خود صاحبزادی کا سیاست و حکومت میںآنا ایک قابل قدر آئینی و جمہوری جذبہ اور ارادہ ہے۔ یہ باپ بیٹی کی لازوال اورقابل رشک محبت کی مثال بھی ہے لیکن مریم صاحبہ جس راہ سے منزل کی طرف جاتی معلوم دےرہی ہیں اوروزیراعظم انہیں جو معاونت کر رہے ہیں وہ کوئی درست نہیں، انہیں پیام اقبال سے بھی آگاہ کیا تھا کہ’’ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ انہیں یہ راہ بھی دکھائی تھی کہ ان کے لئے حالات بے حد سازگار ہیں، لیکن اس کے لئے وہ اپنی علمی و سیاسی سکت بڑھائیں خود کو خاندانی سیاسی اثرات و مراعات سے آزاد کرکے اپنی سیاسی سوچ اور دنیا بنائیں۔ لیکن حکومتی وفاداروں کی واہ واہ اور باپ کی محبت دخترانہ نے انہیں راہ نہ بدلنے دی، وہ تیزی سے اسی پر ہی چل پڑیں اور سیاسی مصیبتوں میں گھر گئیں۔ اوپر سے قدرتی سیاسی آفت، اللہ تعالیٰ حکمرانوں کی اولاد خصوصاً بیٹیوں پر اپنا رحم فرمائے اور انہیں شاہانہ جاہ و جلال کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین

.
تازہ ترین