• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی حالات اچھے نہیں، اپنا بزنس چین یا دبئی منتقل کرلو، آئے روز ان گنت مشوروں، نصیحتوں کے درمیان وطن کی محبت سےسرشار و پرعزم معظم پراچہ بضد تھا کہ کسی صورت بزنس اور بچے بیرون ملک منتقل نہیں کرےگا پھر یہی اس کا قصور ثابت ہوا، پاکستان کےدل لاہور میں محفوظ سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے ہوئے اپنے رزق کے ٹھکانے پر دن دیہاڑے ’’نامعلوم دھماکے‘‘ کی نذر ہو گیا، جی ہاں ایک اور بہادر سپوت چار معصوم بیٹیوں اور بیوہ کو جدائی کا دکھ دے کر وطن کی محبت میں قربان ہو گیا، قوم کا پھر وہی سوال ،کب تک لاشیں اٹھا کر ماتم کریں، کب تک قیمتی جانیں بے وقعت ہو کر وقت سے پہلے خاک ہوتا دیکھیں؟ سرحدوں کےمحافظوں نے پھر لبیک کہا اور ملک بھر میں بلاامتیاز ’’آپریشن ردالفساد‘‘ کا فیصلہ سنا دیا، بعض ذہنوں کی پرانی الجھن کہ پرویز مشرف سے لےکر جنرل کیانی اور پھر جنرل راحیل کے دور تک درجن بھر آپریشنز کے بعد ایک اور آپریشن کی ضرورت کیوں؟ شاید اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ان آپریشنز کی کامیابیوں اور ثمرات کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور سول ادارے مستحکم کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ سب سے بڑھ کردہشت گردی و انتہاپسندی کےخلاف دوسال قبل شروع کئے جانے والے آپریشن ضرب کے کامیاب نتائج کو برقرار نہیں رکھا گیا اور اب حقیقی اور مضبوط امن کی بنیاد بنانےکی خاطر ردالفساد برپا کرنا لازم ہو گیا۔
قارئین کرام، ’’فساد‘‘ عربی کا لفظ ہے جس کےلفظی معنی ہیں حقیقت یا سچ کو توڑ مروڑ کر ایسے پیش کرنا جس سے افراتفری اور معاشرےمیں بدامنی پیدا ہو، قرآن پاک میں ارشاد ہے ’’زمین پر فساد مت پھیلاؤ‘‘ جس کی حقیقی اسپرٹ یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر معاشرے میں ابتری و بےچینی نہ پھیلائی جائے جس سے تباہی و بربادی کا سامان پیدا ہو، غور کیا جائے تو دہائیوں سےجاری دہشت گردی اور اس کے نتیجےمیں بدامنی وبدحالی کے عفریت سے نجات محض فوج کی ذمہ داری قرار دینا منصفانہ نہیں لگتا اور زمینی حقائق بھی نفی میں سر ہلاتے نظر آئیں گے، کیا یہ آئے روز ’’تنزلی‘‘ کا شکار ہوتے عوام کی پریشانی اور مسلسل خوشحال ہوتے حکمران طبقے کی بدترین کوتاہی نہیں؟ خرابی کہاں ہے اور اس کا تعین کون کرے؟ سمجھ نہیں آرہا تو سچ مان لیجئے کہ ردالفساد کی کامیابی صرف ’’جد الفساد‘‘ کے خاتمے میں پنہاں ہے، جی ہاں فساد نہیں اس فساد کی جڑ کا خاتمہ لازم ہو چکا ہے، کہا جاتا ہےکہ درخت کے تنے اور ٹہنیاں کاٹ بھی دی جائیں تو موسم بدلنے کے ساتھ وہ درخت پھر توانا اور ہرا بھرا ہو جاتا ہے لہٰذا جڑ سے اکھاڑے بغیر مسئلے کا پائیدار حل ممکن نہیں، اس پراسیس کو Radical changeکہا جاتا ہے اور Radixیعنی ’’جڑ سے اکھاڑ پھینکنا‘‘ پہلا قدم ہوتا ہے، کیا ہم جدالفساد سے لاعلم ہیں اور بے اعتنائی وغیر سنجیدگی کا سبب محض لاعلمی ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ وفاق اور صوبوں کےحکمران جو اب تک 20نکاتی ایکشن پلان پر بھرپور عمل تو درکنار، گرفتار دہشت گردوں کو جلد انجام تک پہنچانے والی فوجی عدالتوں کی توسیع یا اسپیڈی ٹرائل کورٹس کےقیام کے معاملے پر اب تک ایک صفحے پر نہیں، کیا اب سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے؟ ’’جد الفساد‘‘ یعنی فساد کی اصل جڑ کو جب تک نہیں کاٹا جاتا، حقیقی فتح ونصرت اور امن کا قیام کسی صورت ممکن نہیں، ماضی کے اقدامات اور نتائج سامنے ہیں کہ ملک کے اندر فوجی آپریشن اس کا واحد حل نہیں۔ بلاشبہ ہماری بہادر فوج ایک ایسی جنگ سے نبرد آزما ہے جو بیرونی ہی نہیں اندرونی طور پر محاذ کی صورت اختیار کرچ کی ہے، بیرونی ہاتھ نے اندرونی ہاتھ سےمل کر وطن کےاندر ایسا فساد برپا کیا ہے جس نے گھر کے اندر جنگی کیفیت پیدا کر دی ہے، دوسری طرف پولیس دوسری دفاعی لائن کےطور پر اندرونی محاذ پر ڈٹی ہے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں شہادتوں سے اپنا حق اور خراج پیش کر رہی ہے، سرحدوں سے نکال کر شہروں اور قصبوں میں فوج کو برسرپیکار کرنے کی بجائے پولیس کو عوام کے تحفظ کے لئے پہلی دفاعی لائن بنانا بھی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی جس کی ادائیگی میں وہ ناکام ہیں۔
سابق ملٹری ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے مغربی ایما پر تین دہائیاں قبل مذہب کےنام پر شدت پسندی اور انتہا پسندی کے متعارف کردہ کلچر اور پوری نسل تیار کرنےکا قبیح فعل سوہان روح ہے اور اس کےنسل درنسل پلنے والے ’’اثاثوں‘‘ کے عفریت کو پاکستانی قوم مسلسل بھگت رہی ہے، حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے پوری قوم کو ہلکان کرکے رکھ دیا ہے تو کیا اب بھی ہمارے حکمران، عوام کی مدد سے اس فساد کی اصل جڑ کو اکھاڑ پھینکنے کا انتظام وانصرام نہیں کریں گے؟ غریب کے پائوں میں پڑی غربت کی بیڑیاں جو اس جڑ کےلئے ایندھن کا سامان ہیں کون توڑے گا؟ خالی دماغ شیطان کا گھر اور خالی پیٹ سےتو شیطان بھی پناہ مانگتا ہے تو اس افلاس ومعاشی بدحالی کی دلدل کو خوشحالی کےدریا میں تبدیل کون اور کب کرے گا؟ معاشرے پر قواعد، قوانین اور اصول مسلط کر کے عوام کو غلام اور پابند بنانےکا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کےطول وعرض میں پھیلی سیاست، علاقیت، قومیت، لسانیت اور مذہب کے نام پر شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے بتوں کو پاش پاش کون کرے گا؟ اندرونی و بیرونی ’’مدد‘‘ پر پلنے والے انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بننے والے بےبس، کم زور اور معذور ذہنوں کو شعور کی جلا کون بخشےگا؟ جنت کی خاطر جان لے کر جان دینے والوں کو زندہ رہ کر دنیا کو جنت بنانے کےخواب کی تعبیر کون کرے گا؟ محض چند ٹکوں کی خاطر نام نہاد جہاد کےنام پر اشرف المخلوقات کی گردن زنی کےغیر انسانی فلسفے کو اسلام کے حقیقی اور آفاقی پیغام سے تبدیل کون کرےگا؟ قدم قدم پر دھوکہ دہی، بےایمانی حتیٰ کہ ایمان فروشی کے کاروبار کے گھنائونے کردار انجام سے دوچار کب ہوں گے، عدم برداشت کا سبق دینے والے ’’سیاہ کاروں‘‘ سے نجات ملے گی؟ انسانیت کی فلاح اور دوسروں کی زندگیوں کو روشن و محفوظ بنانےکا درس دینے والے سچے دین کی سربلندی کےلئے کون میدان عمل میں آئے گا؟ عوام دیکھنا چاہتے ہیں کہ فرقہ واریت سے دہشت گردی کے بیج بونے کا گٹھ جوڑ کب تباہ کیا جائے گا؟، شخصی آزادیوں کو یقینی بنا کر عوام کے مکمل تحفظ کا سبب کون کرے گا؟70سال سے علاقہ غیر کے طعنوں کا طوق گلے میں لٹکائے غیرت مند قبائلیوں کو وطن سے محبت کا خراج اور برابر شہری کا درجہ کب دیا جائے گا؟ جذبہ حب الوطنی سے سرشار قبائل کو دہشت گردی کا موجب قرار دینے کے گناہ کا ازالہ کب کیا جائےگا؟ اور سب سے بڑھ کر ’’دوسروں ’’کے گھر کو جلانے کے لئے اپنے گھر میں ’’آگ کا سامان‘‘ رکھنے کی حکمت عملی کب ترک کی جائے گی؟ پس ہم نے جب خود کو بدلنے کا تہیہ کرلیا تو ’’ردالفساد‘‘ دہشت گردی و انتہاپسندی کی سوچ کےخاتمےمیں فیصلہ کن ثابت ہوگا، پھر مذہبی پیشوائوں کو اپنے ’’اعمال‘‘ پر پردہ ڈال کر فرار ہونے کی ضرورت پڑے گی نہ ہی کوتاہیوں کی خفت مٹانے اور عوام سے آنکھیں ملانےکی عدم سکت پر بند کمرہ اجلاسوں میں ’’باامر مجبوری‘‘ سیاہ چشمے لگا کر صفائی پیش کرنے کی ضرورت پیش آئے گی، یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عوام اور سلامتی کےادارے پہلے بھی جانیں نچھاور کر رہےہیں اور گلشن کے تحفظ کی خاطرآئندہ بھی نذر کرتے رہیں گے۔ کسی نےخوب کہا ہے
طے ہو گیا کہ شہر میں ’’حد الفساد‘‘ ہے
اس کا علاج فوج کا ’’رد الفساد‘‘ ہے
سب ٹھیک ہے مگر یہ بتاو مجاہدو،
اس کو پکڑ سکو گے جو ’’جد الفساد‘‘ ہے؟


.
تازہ ترین