• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب سے پہلے خالق و مالک و رازق کا کرم ہے کہ سب ٹھیک رہا۔پھر ان تمام اداروں اور افراد کیلئے تحسین جنہوں نے بہترین انتظامات کئے۔کرکٹ کریزی لوگوں کے اندازوں کے عین مطابق پشاور زلمی فاتح۔ واہ، ایک میچ نے فیصلہ کردیا کہ ہم جیت گئے اور دہشت گردی ہارگئی۔ سو اب ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ سے ردی کی ٹوکری کا پیٹ بھرا جائے اور ان سب پر (مجھ سمیت) چار چار حروف بھیجے جائیں جو صبح، دوپہر، شام ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ پر عمل درآمد کو ہائی لائیٹ کر کے رائی کے پہاڑ اور باتوں کے بتنگڑ بنایا کرتے تھے کہ ساری دہشت گردی تو صرف چند گھنٹوں پر مشتمل میچ کی مار نکلی۔ یہ سب پہلے کر لیا ہوتا تو جانے کتنی قیمتی جانیں بچ گئی ہوتیں؎سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کراٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعددلچسپ لوگ ہیں کہ چاہیں تو بھوک، ننگ اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹم بم بنا لیں، چاہیں تو دہشت گردی کے موسم میں پرامن محفوظ میچ کرا کے بڑھکیں ماریں اور ان لوگوں کو بھی رقص کرنے، جشن منانے پر مجبور بلکہ ’’قائل‘‘ کرلیں جن کی اولادیں بھاری قرضوں کے عوض گروی پڑی ہیں۔ قرض کے طوق ان زنجیروں سے بھاری تو نہیں ہوتے جن کے بارے حبیب جالب نے کہا تھا؎’’رقص زنجیر پہن کے بھی کیا جاتا ہے‘‘قوم نہال ہوگئی سب کچھ جائے بھاڑ میں کرکٹ تو بحال ہوگئی۔ نیرو بہت زندہ دل تھا۔ روم جل رہا تھا اور بانسری بجا رہا تھا۔ مجھے یقین ہے گورے وہاں بھی کرکٹ لے گئے ہوتے تو وہ بانسری بجانے کی بجائے بائولنگ یا بیٹنگ کررہا ہوتا اور اگلے روز یہ فخریہ بیان جاری کرتا کہ ’’دنیا پر ثابت کردیا تنہائی کے دن ختم ہوگئے۔ 4سال کے دوران کرکٹ سے ہم مضبوط، مستحکم اور متحد ہوئے‘‘۔سبحان اللہ چشم بددور اللہ ’’پاناما‘‘ سمیت ہر بلا سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے گھنے سائے ہمارے خالی سروں پر سلامت رکھے مضبوطی، استحکام اوراتحاد کی کیا Definition متعارف کرائی ہے ورنہ انسانی تاریخ بالکل ہی کچھ اور بتاتی ہے کہ انسانی معاشروں کی مضبوطی، استحکام اوراتحاد کا تعلق انصاف، عدل، احسان، علم، ڈسپلن، محنت، مثبت رویوں، اعلیٰ اخلاقی اقدار، خودانحصاری و خودکفالت وغیرہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ پہلا ’’مفکر اعظم‘‘ ہے جس نے مضبوطی، استحکام اور اتحاد کو کرکٹ کے کھاتے میں ڈال کر مجھ جیسے کودن کو حیران کردیا۔ویسے حیران تو میں یہ پڑھ کے بھی بہت ہوا کہ ’’کرکٹ کے معاملہ میں ساری قوم ایک ہے‘‘ تو بھلے مانسو! باقی معاملات میں دست و گریبان اور خنجر بدست کیوں؟ کیا باقی سب کچھ مل ملا کر اس کرکٹ جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا؟ فرض کرو انگریز نہ آیا ہوتا۔ اس کی طویل غلامی کا شرف ہمیں حاصل نہ ہوتا۔ وہ اپنے ساتھ ریل، آبپاشی کا نظام، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز، بلدیاتی نظام وغیرہ وغیرہ وغیرہ کے ساتھ یہ کرکٹ نہ لایا ہوتا تو آج ہم تم کس بات پر ’’ایک‘‘ ہوتے۔ ہمیں یہ’’مضبوطی‘‘ کیسے نصیب ہوتی جو ایوانوں سے ویرانوں تک دندناتی دکھائی دیتی ہے،’’استحکام‘‘ کے یہ کروڑوں نمونے عوام بغیر کرکٹ کے کیسے معرض وجود میں آتے؟ اللہ ای جانے سر سید احمد خان کے فکری جہاد، سر ڈاکٹر علامہ اقبال کی شاعری اور بابائے قوم کے کردار کی عظمت، جان لیوا محنت اور چومکھی جنگ میں کرکٹ نامی اس کھیل کا کتنا رول تھا اور دنیا کے لیڈنگ ملکوں میں سے کتنے اس ’’معجزہ‘‘ کے صدقے اس مقام پر پہنچے کہ آج دنیا کو ڈکٹیٹ کراتے ہیں اور ہجرت میں لٹنے مرنے والوں میں کرکٹ کے کتنے دیوانے شامل تھے۔لیکن خیر ہے بخار اتر گیا، ٹھنڈ پڑ گئی، قرار آگیا۔ سب خطرے اور بھیانک قرضے ٹل گئے تو اتنا عظیم تاریخی معرکہ سر کر لینے کے بعد کچھ چھوٹے موٹے گھٹیا قسم کے غیر ضروری کاموں پر بھی بات ہو جائے تو پھیکے رنگ میں بھنگ ڈالنا ہی تو میرا پیشہ ہے۔ میں کالم نگار نہیں دراصل تمہارے شاہی دسترخوانوں کی دال مکھنی کا کنگ سائیز کوکڑو ہوں اس لئے یہ پوچھنے پر مامور اور مجبور ہوں کہ......زلمی تو فاتح قرار پائے، مختلف قسموں کے ظالموں کا کیا کررہے ہو؟ ان سے بھی کبھی کوئی میچ جیتو گے یا ہمیشہ کی طرح ان کے ساتھ تمہاری میچ فکسنگ جاری رہے گی؟ یہ ستر سال سے مسلسل ٹرافی لے جارہے ہیں۔ ہر بار ’’مین آف دی میچ‘‘ بھی انہی ظالموں کے اندر سے ہی نکلتا ہے تو یہ مکروہ اور منحوس کھیل کب تک جاری رکھنے کا ارادہ ہے؟اس سے پہلے کہ کھیل کا میدان ...... میدان جنگ میں تبدیل ہو جائے، تمہار ی وکٹیں اڑ جائیں، تم بائونسروں کی زد میں آجائو، تمہارا رن ریٹ صفر سے مائینس میں چلا جائے اور تماشائی تمہیں کندھوں کی بجائے گدھوں پر چڑھائے پھریں کبھی شاہ ایران، عیدی امین، صدام حسین، معمر قذافی کو بھی یاد کرلو کہ قذافی اسٹیڈیم کے تو قریب سے گزرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے کہ اس کے انجام کے آخری مناظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔یہ عظیم کارنامہ سرانجام دینے کے بعد بغلیں بجا بجا کر تھک جائو تو عوام کیلئے چلو بھر پانی، مٹھی بھر آٹے، چپہ بھر چھوٹے سے گھر، ان کے بچوں کیلئے بستہ بھر کتابوں، بیماروں کیلئے چند ٹیکوں اور گولیوں کا بھی سوچو ورنہ ’’دی میچ‘‘ شروع ہوگیا تو گاماں مین آف دی میچ ہوگا اور ٹرافی کوئی ماجھا لے جائے گا۔

.
تازہ ترین