• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا کرے!
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے، سوئٹرز لینڈ پاکستان سے لوٹی گئی دولت کی معلومات دینے پر رضامند،21مارچ کو معاہدے پر دستخط ہوں گے۔ ڈار صاحب نے بڑا تیر مارا ہے، اب خدا کرے کہ یہ نشانے پر بیٹھے محض ڈراوا نہ ہو، اگر سوئٹرز لینڈ پاکستان سے لوٹی گئی دولت کی معلومات دینے پر راضی ہوگیا ہے اور اگر یہ معلومات واقعتاً ہمیں موصول ہوگئیں تو ایک اور پاناما کا پاجاما کھل جائے گا، مگر ہمارا یہ خیال ہے کہ شاید یہ حریف کو دبائو میں لانے کا حربہ ہو اور اس کے سوا کچھ نہ ہو اور ہر عہد کے حکمران یہ خوشگوار غلطی کرتے رہیں گے جس کے بارے ساغرؔ صدیقی نے کہا تھا؎
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
حقائق پر کتنے ہی خوبصورت جاذب فکر و نظر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ فقیروں میں کوئی حکمران بھی شامل ہے؟ ہرگز نہیں ہمارے ہر دور کے حکمران غریبوں کے ٹیکسوں سے خیرات بھی کرتے رہے ہیں تاکہ ثواب دارین حاصل کریں۔ یہ نہیں کہ بندہ مفلس کو لٹیروں اور اپنی لوٹی دولت بارے علم نہیں، آج سب کچھ ظاہر و باہر ہونے کے باوجود وہ بےبس ہے ، جو ایک دو بلب اس کے گھر میں جلتے ہیں وہ بھی جلد بجھا دیتا ہے کہ مبادا کوئی ہوشربا بل نہ آجائے؎
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
٭٭ ٭ ٭ ٭
عالمی یوم خواتین...فقط ایک تقریب
حقوق نسواں قوانین پر عمل کیا جائے، عالمی یوم خواتین پر مطالبہ۔ ہم ا بھی اس قابل تو نہیں کہ دنیا بھر کی خواتین کی بہبود کا سوچیں کیونکہ ہمارے اپنے ملک میں حقوق نسواں کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا ہے اس کا سدباب بھی ہم سے نہیں ہوپایا۔ ابھی تک اتنا ہوا ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل پاس ہوگیا ہے ،قانون سازی بھی ہوچکی ہے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ تمام تر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، مگر عملی طور پر کوئی مثبت آثار نظر نہیں آتے۔ بالعموم پاکستان میں بااثر افراد ہی حقوق نسواں کو پامال کرتے ہیں اور ان کے خلا ف رسمی کارروائی ہوتی ہے، کسی کو عبرتناک سزا ملتی ہے نہ ہی بے اثر خاندانوں کی خواتین کو ان کے حقوق دئیے جاتے ہیں۔ ایک برائی جو وطن عزیز میں عام ہے وہ عورت کو اس کی آبائی وراثت سے محروم رکھنے کا چلن ہے۔ بڑے ہی خوبصورت اور کمال اخلاق کے ساتھ خاتون کو دل و جان سے آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا حصہ لینے سے برضا و رغبت دستبردار ہوجائے۔ یہ عمل عورت کے ہمارے معاشرے میں غیر محفوظ ہونے کا ایک بین ثبوت ہے۔ وہ اپنا حصہ لے کر اپنے میکے کو اس لئے ناراض نہیں کرسکتی کہ وہ خاوند کے جبر و ظلم سے نجات پانے کے لئے اپنی آخری پناہ گاہ یعنی میکہ کھو نہ بیٹھے۔ یہ جو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے تو ہمارا اختلاف بس اتنا ہے اس تقریب سے کہ یہ بھی ایک تہوار ہے جو منانے کی حد تک ہے، چیک بھنانے کی حد تک نہیں۔ یہ سیمینار یہ حقوق نسواں کے تحفظ کے لئے این جی اوز اور سماجی تنظیموں کا ہلا گلا فقط اپنے وجود کو قائم اور کمائو رکھنے کے لئے ہوتا ہے، قوانین تو ہمارے ہاں ہر برائی کے خلاف موجود ہیں مگر کیا کسی برائی میں کمی آئی؟ آج بھی خواتین حق وراثت سے محروم ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ ’’یہ‘‘ کیا ہے!
’’تو کیا ہے‘‘ کی حد تک تو قابل برداشت ہے مگر ہر معاملے میں مین میخ نکالنا تنازع کھڑا کرنے کی کوشش تسلیم نہیں کی جاسکتی، جیسے نکاح سے پہلے رخصتی نہیں ہوسکتی، اجتماعی سوچ پیدا کرنے سے پہلے کسی بھی قومی مسئلے پر بحث کرنا فضول ہے، یہی وہ بنیادی خرابی ہے جو سسٹم کو درست نہیں ہونے دیتی، انا اور ذات کے بت جب تک گرا ئے نہیں جاتے قوم کی بہتری اور خوشحالی کے لئے کوئی کوشش بارآور نہیں ہوگی۔ ٹھیک ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی سیاست کرے لیکن مرکزی نقطہ ایک ہونا چاہئے۔ قومی یکجہتی ، متفقہ قومی سوچ اور اہم قومی مفادات پر ایک ہونے کی باتیں بہت کی جاتی ہیں مگر عملاً ہماری سیاست، موروثیت ، چند گھرانوں اور کچھ افراد کا طواف کرتی دکھائی دیتی ہے۔ سیاست ڈرامہ بن چکی ہے یا ایک خواب کہ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ تمام حکمرانوں ، سیاستدانوں اور دیگر شعبوں کے سربرآوردہ ا فراد کے خاندان باہر ہیں، بچے باہر تعلیم پاتے ہیں، شاپنگ تک باہر سے کی جاتی ہے، اب ایسے میں عوام کی بھلائی کے کاموں کی توقع کرنا عبث ہے۔ کرپشن ہو یا ملاوٹ والی خوراک سفارش ہو یا بیروزگاری ایسے مسائل تو غریب عوام کو درپیش ہیں، جو اس فاسد ماحول سے باہر جانے کی سکت نہیں رکھتے، کوئی حکمران، سیاستدان ، اشرافیہ سے باہر نہیں اس لئے ان کے چہروں پر ہر وقت خوشی اور اطمینان صاف دکھائی دیتا ہے۔ اترے ہوئے چہرے اور انجانے خوف کا شکار تو وہ کروڑوں پاکستانی ہیں جو ہر پانچ برس کے لئے بے تحاشا دولت رکھنے والے قوم کے نام نہاد ڈرامائی کرداروں کو اقتدار میں اس لئے لاتے ہیں کہ وہ ان کے لئے کام کریں گے، مگر 70برس ہوگئے عوامی خدمت کے دعویداروں ان کی اولاد نے تو ترقی کی مگر ان کے ووٹرز خالی ہاتھ خالی دامن جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
٭...ملالہ یوسفزئی، عورتوں کو اپنے حقوق کے لئے خود کھڑا ہونا ہوگا۔
قوم کی قابل فخر بیٹی نے سولہ آنے صحیح بات کی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ خواتین کو ان کے حقوق کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دے گا۔
٭...سربراہ انسانی حقوق ا قوام متحدہ کہتے ہیں، ٹرمپ نفرت پر مبنی جرائم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
یہ تو ٹھیک ہے مگر ان کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
٭...پاک ا فغان تعلقات کی خوشگواری ہی وقت کی ضرورت ہے۔
یہ بھارت، یہ امریکہ ،یہ نیٹو فورسز سدا افغانستان میں بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ افغانستان، پاکستان ماضی میں ایک دوسرے کا بازو بنے رہے ہیں، پاکستان کو اپنی ڈپلومیٹک صلاحیتیں بروئے کار لانا ہوں گی، مگر کیا ہوگا جبکہ ہماری وزارت خاجہ کا دھڑ مکمل ہی نہیں اور کوئی واضح اٹل پالیسی بھی نہیں، سفارتکاری ہی آخری حل ہے۔

.
تازہ ترین