• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انیس سال کے طویل وقفے کے بعد بدھ کو پاکستان میں چھٹی مردم و خانہ شماری شروع ہو رہی ہے جو مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے قوم کے لئے بلاشبہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سلسلے میں پاک فوج کے تعاون سے تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ اصولاً یہ آٹھویں مردم شماری ہونی چاہئے تھی لیکن آمریت کے علاوہ جمہوری ادوار میں بھی حالات کے ناساز گار ہونے کے بہانے اسے مسلسل ٹالا جاتا رہا۔ اب بھی شاید اس کا انعقاد ممکن نہ ہوتا لیکن سپریم کورٹ کے سخت حکم کے بعد چارو ناچار اس سمت میں ضروری اقدامات اٹھانے پڑے۔ اتوار کو وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں 15مارچ سے 25مئی تک دو مرحلوں میں مردم شماری مکمل کرانے اور اس کی شفافیت، تسلسل اور سیکورٹی کو یقینی بنانے کے انتظامات کی تفصیل بتائی۔ حکومت نے اس کام کے لئے ساڑھے 18ارب روپے کی خطیر رقم بجٹ میں مختص کی ہے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے بھرپور تیاریاں کی گئی ہیں۔ اس مقصد کے لئے دو لاکھ فوجیوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ ان کا سیکورٹی ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو میں ہوگا۔ عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھیں تاکہ مردم شماری کے دونوں مراحل پرامن طور پر اور کسی رکاوٹ کے بغیر مکمل ہو سکیں ہر سول شمار کنندہ کے ساتھ ایک فوجی تعینات ہو گا۔ مردم شماری کا عملہ گھر گھر جا کر افراد خانہ کا اندراج اور دوسری معلومات جمع کرے گا۔ اس سلسلے میں تقریباً ایک لاکھ 19ہزار سول ملازمین کی تربیت مکمل کر لی گئی ہے اور انہیں اپنی ڈیوٹی کی جگہوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔ عام شہریوں کے علاوہ دہری شہریت والوں افغان مہاجرین اور خواجہ سرائوں کو بھی گنا جائے گا۔ درست معلومات کو یقینی بنانے کے لئے غلط بیانی کرنے والوں کے لئےسزا بھی تجویز کی گئی ہے۔ ایسے افراد کو 6ماہ قید بھگتنے کے علاوہ 50ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس اہم قومی فریضے کی تکمیل کے لئے پاک فوج کے رابطے کو شکریہ کے ساتھ قبول کریں اور اس کی ساکھ بڑھانے میں مدد دیں مردم شماری ازمنہ قدیم میں بھی ہوتی تھی صدیوں قبل رومی سلطنت چین اور ہندوستان میں بھی آبادی کے صحیح اعداد و شمار حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو گنا جاتا تھا، پاکستان میں 1981 کے بعد 1998میں مردم شماری ہوئی اور اب 2017میں اس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پچھلی مردم شماری کے وقت پاکستان کی آبادی 13کروڑ 40لاکھ تھی جو اب فرضی تخمینوں کے مطابق تقریباً 19کروڑ 31لاکھ ہے۔ مردم و خانہ شماری کے کئی مقاصد ہیں اس کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں کتنے لوگ بستے ہیں۔ ان میں مرد کتنے اور عورتیں کتنی ہیں۔ کتنے لوگوں کے پاس اپنے گھر ہیں اور کتنے بے گھر ہیں۔ حکومت ان اعداد و شمار کے ذریعے انتخابی، اقتصادی اور فلاحی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ نئی مردم شماری کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا تعین ہو گا۔ نئی حلقہ بندیاں بنیں گی اوراین ایف سی ایوارڈ میں ردو بدل کیا جائے گا۔اس مرتبہ پہلی بار خواجہ سرائوں کو بھی گنا جائے گا جو بہت ضروری تھا لیکن ایسے مردوں عورتوں اور بچوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے جن کے ماں باپ کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ یتیم خانوں اور فلاح گھروں میں پالے پوسے جاتے ہیں۔ ان کے شناختی کارڈ بنتے ہیں نہ انہیں ملازمتیں ملتی ہیں یہ ایک بہت بڑا انسانی مسئلہ ہے۔ مردم شماری میں انہیں بھی گنا جانا چاہئے۔ مردم شماری عملے کو کراچی اور بلوچستان میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ جہاں نسلی بنیادوں پر بعض پارٹیاں تحفظات کا شکار ہیں۔ حکومت کو معاملے کے اس پہلو پر بھی خصوصی نظر رکھنا ہو گی مردم شماری قومی مسائل کے حل میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے اس لئے عوام کو درست اعداد و شمار جمع کرنے میں عملے سے بھرپور تعاون کرنا چاہئے اور دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھنا چاہیئے تاکہ وہ اس عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔

.
تازہ ترین