• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتوار پانچ مارچ کو فائنل کرکٹ میچ نے دکھادیا ہے کہ پاکستان کو خوش اسلوبی سے کیسے چلایا جاسکتا ہے۔ وہ چار گھنٹے مثالی چار گھنٹے تھے، حیران کن چار گھنٹہ تھے، نہ دنگا نہ فساد نہ کوئی ڈکیتی نہ کوئی بم پھٹا اور نہ خود کش حملہ ہوا۔ ٹریفک رواں دواں، ایمبولینسز کو آنے جانے کے لئے کھلا راستہ ملتا رہا، نہ کسی سے پرس چھینا گیا اور نہ کسی کو موبائل سے محروم کیا گیا۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چوری نہیں ہوئیں، ناگہانی صورتحال کا سدباب کرنے کے لئے موبائل یعنی چار پہیوں پر اسپتالوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ چوکس تھا، نہ ٹونٹیوں سے پانی گیا اور نہ بجلی غائب ہوئی۔ ہزاروں افراد دھکم پیل کے بجائے منظم طریقے سے قطار در قطار میچ دیکھنےکے لئے اسٹیڈیم میں داخل ہوتے رہے۔ اعلیٰ انتظامات کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
ہم بڈھوں نے برسوں بعد پہلی مرتبہ اس نوعیت کا نظم و نسق اور قانون کی بالادستی دیکھی تھی۔ ایک بڈھے نے حسرت سے کہا اگر پورا ملک اسی طرح نظم و نسق اور قانون کی بالادستی سے چلایا جائے تو کیسا لگے گا؟
بڈھوں کی محفل اچانک سیمینار میں بدل گئی۔ یعنی موضوع پر آرا اور اظہار رائے کی مجلس میں بدل گئی۔ اتفاق کی بات تھی کہ ہم سب بڈھے پاکستان کی عمر سے زیادہ معمر تھے۔ ہم نے تحریک پاکستان کا دور دیکھا تھا، ہم نے پاکستان بنتے دیکھا تھا، ہم نے پاکستان ٹوٹتے دیکھا تھا، ہم آنکھوں میں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں لے کر زندہ تھے، کچھ دلبرداشتہ تھے، کچھ مایوس تھے، کچھ غصہ میں تھے، کچھ جلے بھنے بیٹھے تھے۔ ہم سب اپنی آرادوسروں تک پہنچانے کے لئے ایک ساتھ بول رہے تھے۔ ان کی آرا فرداً فرداً آپ تک پہنچانا امکان سے باہر ہے، اس لئے اپنے ہم عصر بڈھوں کی چیدہ چیدہ باتیں میں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔ کس نے کہا؟ یہ اہم نہیں ہے، کس نے کیا کہا؟ یہ اہم ہے۔
اتوار، پانچ مارچ کے روز لاہور میں قانون کی بالادستی اور لاجواب نظم و نسق دیکھ کر بڈھے بے حد حیران ہوئے۔ ان کے درمیان بحث تب چھڑی جب کسی ایک بڈھے نے کہا صرف چند گھنٹوں کے لئے کیوں؟ پورا ملک اسی طرح کیوں نہیں چلاتے؟
مالیاتی امور کے ایک بڈھے ماہر نے کہا چند گھنٹوں کے نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی کے لئے پاکستان سرکار کو اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑے تھے۔ ایک مقروض حکومت کے لئے کیسے ممکن ہے کہ پورے ملک کا نظم و نسق چند گھنٹوں کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے قانون کی بالادستی کے ساتھ چلائے۔
مجھ سے زیادہ بوڑھے شخص نے کان سے میل نکالتے ہوئے ہوئی پوچھا کیا آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بنک، امریکہ اور یورپی ممالک نے ہمیں قرض دینے سے انکار کردیا ہے؟
ایک جلے بھنے بڈھے نے پوپلے منہ سے ہنستے ہوئے کہا اگر انکار کردیا ہوتا تو پورے پاکستان میں ہائوسنگ اسکیموں کا کام دھڑا دھڑ کیسے چل رہا ہوتا؟ ایک ایک افسر کی دس دس کوٹھیاں تیار ہورہی ہیں۔
ہم سب میں معمر بڈھے نے کہا بوڑھا گورکن ٹھیک کہہ رہا ہے، قرضوں اور امدادوں کی بھرمار ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو افسران کے اپنے ترقیاتی کام رک گئے ہوتے۔
مالی امور کے ماہر بڈھے نے کہا قرضوں اور بین الاقوامی امدادوں کی گنگا بہہ رہی ہے، مگر حکومت نے کرکٹ میچ کے حوالے سے لاہور میں چند گھنٹوں کے لئے نظم و نسق اور قانون کی بالادستی کی جو جھلک دکھائی تھی، اس کا اطلاق وہ بھی پورے پاکستان پر امکان سے باہر ہے۔ پورے ملک پر لاہور جیسے نظم و نسق کے اطلاق کی قیمت ہے دس کھرب ڈالر یومیہ!
سب بڈھے مالی امور کے ماہر بڈھے کی بات سن کر بہت مایوس ہوئے۔ ہم سب لاہور میں چند گھنٹوں کے نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی دیکھ کر بہت متاثر ہوئے تھے۔ ان چند گھنٹوں میں کسی نے رشوت لی اور نہ کسی نے رشوت دی۔ ایسی کوئی ایک مثال سامنے نہیں آئی جس میں پولیس یا انتظامیہ نے رشوت لے کر کسی شخص کو میچ دیکھنے کے لئے اسٹیڈیم میں جانے دیا ہو۔ رشوت لے کر غلط پارکنگ کی اجازت دی ہو، رشوت لے کر ٹھیلہ لگانے کی اجازت دی ہو۔ ہم بڈھے ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے تھے، ہم بڈھے ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اس کے لئے پاکستان اتنی بڑی قیمت ادا نہیں کرسکتا۔ دس کھرب ڈالر یومیہ! اس ایک دن کے دوران کوئی نہ رشوت لے گا اور نہ کوئی رشوت دے گا۔ اس ایک دن کے دوران ڈاکے نہیں پڑیں گے، بم دھماکے نہیں ہوں گے۔ خودکش حملے نہیں ہوں گے، چھینا جھپٹی کی وارداتیں نہیں ہوں گی۔ قبضہ مافیا کا صفایا ہوجائے گا، تعلیمی ادارے کھلے رہیں گے، اسپتالوں میں ڈاکٹر موجود ہوں گے، وقت کی پابندی ہوگی اور ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ جرم کرے کوئی اور سزا ملے کسی اور کو! خود قانون بنانے والوں پر قانون کی بالادستی ہوگی۔ ایسے ایک انمول دن کی قیمت تھی دس کھرب ڈالر! آپ لمحوں میں زندہ نہیں رہتے، لمحے آپ میں زندہ رہتے ہیں۔ آپ کے ارادوں اور آپ کے خوابوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ہم بڈھوں کی تشویش بے معنی نہ تھی، ایک مقروض ملک تاحیات دس کھرب ڈالر فی دن امن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
تب کسی نے کہا پاکستان میں پیٹرول کے اٹھارہ کنوئیں ہیں وہ خام پیٹرول کہاں جاتا ہے، کس کے استعمال میں آتاہے۔ اس سے ملنے والی اربوں، کھربوں ڈالر کی آمدنی کس کس کی جیب میں جاتی ہے؟ چائنا پاکستان کاریڈور کی تکمیل کے بعد اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا۔

.
تازہ ترین