• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے بدھ کے روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے افسروں کی گریڈ22میں ترقیاں کالعدم قرار دیتے ہوئے ایک ماہ میں اعلیٰ سطحی بورڈ کا اجلاس بلا کر از سر نو جائزہ لینے کا جو حکم دیا، اسے پچھلے دنوں کے دوران اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے دیئے گئے احکامات اور ریمارکس کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو آئین اور عوامی حقوق کے نگہبان ادارے کی حیثیت سے عدالت عظمیٰ کی کارکردگی کا وہ پہلو سامنے آتا ہے جو ہر طرح کی مشکلات سے دو چار عام آدمی کو مکمل مایوسی کی کیفیت سے نکال کر امید کی روشنی دکھانے کا موجب ہے۔ تاہم نظم ِحکومت کے حوالے سے صرف عدالتی احکامات اور ریمارکس کا ہی سرسری جائزہ لیا جائے تو گورننس کی ایسی تصویر سامنے آتی ہے جسے کسی طور بھی قابل رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بدھ کے روز چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایف بی آر افسران کی ترقیوں سے متعلق کیس میں یکم اگست 2016کے پروموشن کے حوالے سے جس اعلیٰ سطحی اجلاس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا اس میں غیر متعلق افراد کی شرکت، ترقی پانے والوں کے خلاف متعدد رپورٹوں کی موجودگی اور منظور نظر افراد کو ترقی دینے کے لئے اہل افسران کو نظر انداز کرنے کے ریمارکس فاضل جج صاحبان کی طرف سے دیئےگئے ۔ منگل کے روز سپریم کورٹ نے ایک از خود نوٹس کیس کا فیصلہ جاری کیا جس کے تحت ایک صوبائی پبلک سروس کمیشن کے 2013سے2016کے دوران منعقدہ تمام امتحانات اور انٹرویوز نتائج شفاف نہ ہونے کی بنیادپر کالعدم ہو گئے۔ منگل 14مارچ کو عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بنچ نے سینئر بیورو کریٹس کی ترقی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلیں خارج کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ برقرار رکھا جس میں2015 سے سینئر افسران کی ترقیوں کو کالعدم کرتے ہوئے نظر انداز افسروں کو سلیکشن کے عمل میں شامل کرنے کا حکم دیا گیاتھا۔ اس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ججوں کی طرف سے دیئے گئے ریمارکس میں کہا گیا کہ بہترین افسران کو چھوڑ کر من پسند افراد کو ترقی دینے کی سفارش کی گئی،یہ بھی کہا گیا کہ جس کو جتنے بھی نمبر دیئے جائیں، ان کی وجوہ تحریر کی جائیں اور صوابدیدی پانچ نمبروں کا بھی کوئی طریق کار ہونا چاہئے۔پیر کے روز منچھر جھیل میں آلودگی سے متعلق کیس سماعت کے دوران لارجر بنچ کے ریمارکس میں یہاں تک کہا گیا کہ ’’وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی ٹھیکے پر دے دیں ‘‘منگل 14مارچ کو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں تین رکنی بنچ نے سندھ کول اتھارٹی میں بھرتیوں سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیئے ان کا اندازہ متعلقہ خبر کی ان سرخیوں سے لگایا جا سکتا ہے جن کے مطابق قانون بالائے طاق رکھا جا رہا ہے، مطلوبہ تعلیمی معیار پر پورے نہ اترنے والے افراد کو بھرتی کر کے اہل افراد کا حق مارا جا رہا ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں کو مایوس کیا جارہا ہے۔ صرف چند دنوں میں آنے والے فیصلوں اور ریمارکس کا یہ پہلو بہر طور امید افزا ہے کہ وطن عزیز میں نظمِ حکومت کی خامیوں کی جو صورتحال بھی ہے،ان کی درستی پر توجہ دی جا رہی ہے۔دنیا بھر میں بنائے جانے والے قوانین اور منشور حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک کے حقوق، ذمہ داریوں اور تعلقات کا تعین کرتے ہیں۔ان اصولوں کے سوتے مذاہب کی ان تعلیمات سے پھوٹتے ہیں جن کا مقصد انسان اور انسانیت کی فلاح ہے۔ قرآن حکیم جب فرعون کو ظالم کہتا ہے تو یہ واضح کرتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے لوگوں میں امتیاز کرتا تھا یعنی میرٹ کو پامال کرتا تھا۔ میرٹ کی پامالی کرپشن کی وہ بدترین شکل ہے جو ہر استحصال اور برائی کو جنم دیتی ہے۔ دہشت گردی سمیت تمام جرائم کے ڈانڈے اسی سے ملتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے 2013میں برسر اقتدار آنے کے بعد نظم ِحکومت کی بہتری ،خاص طور پر معیشت کے شعبے میں اصلاحات کے اقدامات کئے مگر طویل عرصے سے جاری بگاڑ کی کیفیت ایک مجموعی اوور ہالنگ کی ضرورت اجاگر کرتی ہے جس کے لئے پوری سنجیدگی سے قانون سازی کی جانی چاہئے۔

.
تازہ ترین