• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علاقائی امن :پڑوسی پاکستانی کوششوں کا مثبت جواب دیں

قوم کو درپیش دہشت گردی کے سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لیے جاری فوجی آپریشن سے ملک کی سرحدوں کے اندر جو شاندار نتائج حاصل ہوئے ہیں پوری دنیا ان کی معترف ہے لیکن افغانستان سے دہشت گردی کی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں جنہیں کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے والی تنظیموں کے خلاف کابل حکومت بھی مؤثر اقدامات عمل میں لائے ۔ ایسا نہ ہونے ہی کی وجہ سے سرحد پار سے ہر چند روز بعد دہشت گرد حملے ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی خیبر ایجنسی میں پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں نے آدھی رات کو فرنٹیر کور کی چوکی پر حملہ کیا جس میں دو اہلکار شہید ہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں آٹھ دہشت گرد مارے گئے۔ اس واقعے کے بعد خیبرایجنسی کی وادی راجگال میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد دہشت گرد ہلاک اور ان کے ٹھکانے تباہ ہوگئے۔دہشت گردی کا دوسرا واقعہ ضلع چار سدہ کی تحصیل شبقدر میں پیش آیا ۔دو خود کش حملہ آوروں نے فرنٹیر کانسٹبلری کے تربیتی مرکز میں فجر کی نماز کے وقت یہ تاثر دیتے ہوئے داخل ہونے کی کوشش کی کہ ان کا تعلق ایف سی ہی سے ہے لیکن وہاں موجود اہلکاروں نے فائرنگ کرکے دہشت گردوں کو مرکز میں داخل ہونے سے روک دیا ۔تاہم خود کش بمباروں نے خود کو دھماکے سے اڑادیا ، ان کا یہ اقدام ایک اہلکار کی شہادت اور دو کے زخمی ہونے کا باعث بنا ۔ ان حملوں کی ذمہ داری افغانستان میں محفوظ ٹھکانے رکھنے والی بھارتی سرپرستی کی حامل کالعدم جماعت الاحرار نے قبول کرلی ہے۔ ان واقعات میں پاکستانی اہلکاروں نے جس فرض شناسی جرأت اور مستعدی سے کام لیا اس پر وہ بجاطور پر پوری قوم کی جانب سے خراج تحسین کے حقدار ہیں۔لیکن یہ امربہرحال انتہائی تشویشناک ہے کہ جماعت الاحرار سمیت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیموں کو پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ جبکہ صدر اشرف غنی نے بھی اپنے ملک کو عملاً مودی حکومت کی گود میں ڈال رکھا ہے ۔ بظاہر یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اشارے پر پاکستان میں کارروائیاں کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کابل حکومت کوئی نتیجہ خیز کارروائی کرنے سے قاصر رہی ہے لیکن جب پاکستان نے مجبوراً سرحدوں کی بندش کا فیصلہ کیا تو اس پر غنی حکومت نے سخت ناراضگی ظاہر کی حالانکہ ان کی عدم فعالیت ہی اس کا سبب تھی۔ اس کے باوجود جب افغانستان نے سرحدوں کی بندش کے خاتمے کے لیے برطانوی حکومت کی میزبانی میں پاک افغان مذاکرات کا اہتمام کرایا تو پاکستان نے اس پر پوری کشادہ دلی سے لبیک کہا۔ لیکن اس بات چیت کے چند گھنٹوں بعد ہی افغانستان سے پاکستان میں ایک بار پھر جماعت الاحرار نے دہشت گردی کی کارروائیاں کرڈالیں۔اس کے باوجود پاکستان علاقائی امن اور پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے افغانستان ہی نہیں بھارت سے بھی بہتر تعلقات کا خواہاں ہے اور تمام اختلافات پرامن اور بامقصد بات چیت سے طے کرنا چاہتا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے جمعہ کو پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں ہمسایہ ملکوں سے خوشگوار اور پرامن تعلقات کے قیام کے اس جذبے کو سراہتے ہوئے امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کے لیے یقینا ًنہایت حوصلہ افزء ہے۔ نئی دہلی اور کابل کی جانب سے بھی پاکستان کی خواہش امن کا مثبت جواب دیا جائے تو خطے کے کم و بیش ڈھائی ارب باسیوں کو خوشگوار زندگی کی نعمتوں سے مالا مال کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کو روکنا اگر صدر غنی کی حکومت کیلئے ممکن نہیں تو انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرلینا چاہئے پاکستان اور نیٹو فورسز کے تعاون سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کے لئے مشترکہ اور فیصلہ کن کارروائی کرنی چاہئے تاکہ علاقائی امن اور استحکام کی منزل حاصل ہوسکے جو عالمی امن کیلئے بھی ضروری ہے۔

.
تازہ ترین