• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے دوست ہزار!
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں یوم پاکستان جس شان و شوکت سے منایا گیا اور پوری دنیا میں بھی یہ تقریب سعید منعقد کی گئی، اس سے زور دار انداز میں یہ عیاں ہو گیا کہ پاکستان تنہا نہیں دوستوں کے جھرمٹ میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، یوم پاکستان اور 14؍ اگست کی باہمی نسبت تصور و تصویر کی ہے، ہر مارچ کے بعد اگست آتا رہے گا اور لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم نظریاتی اسلامی ریاست یاد دلاتی رہے گی کہ ابدی نظریہ ہی ہمارا جغرافیہ ہے، اور ’’ملت از وطن است‘‘ کے ناپائیدار تصور کو کھوکھلا ثابت کرتا رہے گا۔ ہم امن کے داعی ہیں، ساری دنیا ہماری ہم ساری دنیا کے ہیں، انسانیت کی سلامتی قرآن حکیم کا اٹل پیغام ہے، ہم سب کو اپنا دوست سمجھتے ہیں، سارا عالم دیکھے گا کہ دشمن بھی ہمارے دوست بن جائیں گے حقیقت تو یہ ہے کہ آدم ؑ و حواؑ کے بچے بھائی بھائی ہیں، مذاہب و مکاتب مختلف ہونے سے یہ رشتہ نہیں ٹوٹتا، ہم نے یوم پاکستان کے موقع پر بنی نوع انسان کو اختلافات مٹانے کا پیغام دیا، جو مال و زر آج کا انسان ایک دوسرے سے ڈر کر گولہ بارود پر خرچ کرتا ہے اگر یہ انسانوں کی بہبود پر خرچ کیا جائے تو یہ الجھی ہوئی پریشان دنیا خوشیوں کا گہوارہ بن سکتی ہے، دہشت گرد ابلیس کا کارندہ ہے جو فساد فی الارض پیدا کر کے انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے پر لگا ہوا ہے، تمام قوتیں، قومیں، اگر بقائے باہمی کے اصول پر چل پڑیں تو ایک طاقت بن کر دہشت گردی کے عفریت کو شکست دے سکتی ہیں، رنگ نسل مذہب کی بنیاد پر یہ دنیا انسانوں سے خالی نہیں کرائی جا سکتی کیونکہ کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں، سب انسان برابر ہیں، اس دنیا کو جنت بنانے کی کوشش اگلی دنیا میں بھی جنت کی ضامن ہو سکتی ہے انسان تدبر کرے غور کرے۔
٭٭٭٭
آئو حسن یار کی باتیں کریں!
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے: حکمران ایسے کام کرتے ہیں جن میں کمیشن ملے۔ موجودہ حکمرانوں میں غرور نظر آتا ہے، چوہدری شجاعت پرویز الٰہی سے ملاقات ہم تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ باتیں تو ساری اچھی کی ہیں زرداری صاحب نے مگر میمنے ڈرے ڈرے سے ہیں کہ پھر پیار بھری باتیں سن کر وہ نوالہ نہ بن جائے، اور یہ تو ہمارے ہاں عام ہے کہ خدا جب اقتدار دیتا ہے تو غرور آ ہی جاتا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ پی پی، پنجاب کی بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے سیاسی محلوں کو اکٹھا کر کے ایک شہر سیاست بنا کر اقتدار کے اونچے سنگھاسن کو سیڑھی لگا رہے ہیں۔ مگر شریف خاندان ، پی ٹی آئی نے ٹانگیں کھینچیں تو یہ سیڑھی سمیت پی پی نیچے بھی آ سکتی ہے، کمیشن ہی تو وہ چھیچھڑا ہے جسے جتنا چبائو مزا دیتا ہے، اور اس وطن غریب میں طبقہ امراء کو اس کا اجتماعی طور پر ایسا چسکا لگا ہے کہ اس کی تو زرداری بات ہی نہ کریں نہ کسی کو طعنہ دیں کہ یہ کمیشن حمام ہے اس میں سارے کے سارے بے لباس ہیں، کوئی اور اچھی سی نیک سی گل بات کریں کہ ثواب دارین حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے، ہمارے عوام کا خیر سے یہ مزاج ہے کہ جو ان کو بالکل اچھا نہ لگے اسی کی انگلی پکڑ کر ڈٹھے کھوہ نکل پڑتے ہیں، اس لئے یہاں سب امید سے ہیں نا امید کوئی بھی نہیں، موجودہ حکمران کمیشن کھاتے ہیں نہیں کھاتے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے مگر اس مملکت خدا داد میں کون سا حکمران منہ ہے جس سے کمیشن گزرا نہ ہو، ہم نے تو سرِرہگزر بہت کچھ دیکھا ہے پر ہم کچھ نہیں بولے گا، چھوڑیں ان جھنجھٹوں کو؎
آئو! حسن یار کی باتیں کریں
زلف کی ابرو کی رخسار کی باتیں کریں
وما علینا الا البلاغ ۔۔ اور ہم تم کچھ کر بھی تو نہیں سکتے ایک اپنی سی تبلیغی جماعت تو چلا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
تو اے جان وفا ہم کیا کریں؟
اس پاک سرزمین شاد باد میں ہر روز کوئی نہ کوئی راز کھلتا ہے کوئی نیا انکشاف ہوتا ہے، اور اب تو کچھ بھی ڈھکا چھپا نہ رہا، ڈھٹائی زندہ باد کہ سو چوہے سب کے روبرو کھا کر بلی ہاروں سے لدی سوئے حرم چل پڑتی ہے، بقول کسے بیٹری چارج کرانے کے لئے! بندریا اداس بیٹھی تھی کہ اس کا بندر سرتاج کچھ کما کر ہی نہیں لاتا کہ میں بیٹھی آرام سے کھائوں، بندر جب اسے پریشان دیکھتا ہے تو اپنی نالائقی نا اہلی کو بھانپ کر اور زور سے چھلانگیں لگانے لگتا ہے، کبھی اس شاخ پر تو کبھی اس شاخ پر اور کبھی الٹا لٹک کر بندریا بیگم سے آنکھ ملانے لگتا ہے، اور پھر ایک جھٹکے سے زمین پر اتر کر اس کے سامنے اٹینشن کھڑا ہو کے فاتحانہ کہتا ہے ’’توں میریاں آنیاں جانیاں تے ویکھ!‘‘ ہم کسی ایک کی بات نہیں کر رہے سارے جنگل کی بات کر رہے ہیں، اور قوم کو گزشتہ، پیوستہ، موجودہ اور آئندہ تمام حکمرانوں کے اقتدار ترانے کا یہ بول سناتے ہیں؎
ہم تم ہوں گے بادل ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا
ہم جس جنگل میں رہتے ہیں اس میں بہت سے سبز باغات ہیں ’’کالا باغ‘‘ ایک بھی نہیں۔ وقت نے کیا ایسا حسیں ستم کہ سب کچھ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا، اور سب فیل ہونے والے لڑکے ایک دوسرے کو فیل ہونے کا طعنہ دینے لگے ہیں، بریک لینے کے بعد سابقہ اینکر جب دوبارہ مائیک سنبھالتا ہے، تو اس اعتماد سے جھوٹ بولتا ہے کہ جیسے ناظرین کے حافظے خدا حافظ ہو گئے ہیں، انہیں کرتوت بھی اخلاق حمیدہ دکھائی دینے لگے ہیں، بہرحال نصیبہ ہی جو جل جائے تو اے جانِ وفا ہم کیا کریں؟
٭٭٭٭
کیا کیا خضرؑ نے سکندر سے!
....Oطاہر القادری:انصاف ناپید اور جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے،
اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار۔
....Oعمران خان:عوام ارض پاک مجرموں سے چھڑانے کی تدبیر کریں،
ہم تدبیر کر لیں گے آپ زحمت نہ کرنا کہ آپ کی تدبیر ہمیں بڑی مہنگی پڑتی ہے۔
....Oمولانا فضل الرحمٰن:تبدیلی عسکری قوت سے نہیں عوامی طاقت سے آ سکتی ہے،
مگر عسکری قوت کے ذریعے تبدیلی کی تو کسی نے بات ہی نہیں کی؟ لگتا ہے وفور سیاست سے مولانا کچھ ’’سترے بہترے‘‘ہوتے جاتے ہیں۔
....Oطیاروں کی فنی خرابی، کمی، 3پروازیں منسوخ 5لیٹ۔
باکمال لوگ لاجواب سروس لطیفہ بن گیا۔ شاید اس گردن زدنی کو فروختنی بنایا جا رہا ہے۔

.
تازہ ترین