• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے احتساب قانون کے تحت ضمانت کا حق دیا جائے گا

اسلام آباد (انصار عباسی)نئے لیکن مضبوط نظام احتساب کے لئے پارلیمانی کام کی رفتار سست ہوگئی ہے تاہم ارکان پارلیمنٹ کی مجلس جو نئے انسداد بدعنوانی نظام پر مشاورت کےلئے قائم کی گئی ہے، کے ذرائع کو اب بھی امید ہے کہ قومی احتساب کمیشن کے لئے مسودہ قانون آئندہ ماہ میں تیار ہوجائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی کے لئے حقیقی چیلنج سب سے احتساب کے لئے اتفاق رائے پیدا کرناہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ججز اور جنرلزبھی شامل ہوں۔ تاہم کمیٹی نے تجویز پیش کی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی طرح تمام سول اور سرکاری ملازمین بشمول بیوروکریٹس، ججز اور جنرلز اپنے سالانہ مالی گوشوارے عوام کے سامنے لانے کے پابند ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی کے ذرائع کے مطابق موجودہ نیب کے قانون کے ’’ڈریکولائی‘‘ پہلو کے برعکس جس میں بیورو کی حراست میں جانے والے افراد 90 روز تک ضمانت کے حقدار نہیں ہوتے، مجوزہ مسودہ قانون ملزم کو ضمانت کا حق دیتا ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ’’رضاکارانہ واپسی‘‘کا موجودہ اہتمام ختم کر دیا جائے گا جبکہ پلی بارگین کی اجازت صرف عدالتی فیصلے پر دی جائے گی۔ وہ لوگ جن کی پلی بارگین منظور ہوجائے گی وہ پھر بھی زندگی بھر کے لئے کسی بھی سرکاری ملازمت یا عوامی عہدے کے لئے نااہل ہوجائیں گے۔ دونوں ایوانوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی چند ماہ قبل انسداد بدعنوانی کا نیا ادارہ بنانے کے لئے قائم کی گئی تھی اور اس نے اپنے چند ابتدفائی اجلاسوں ہی میں قومی احتساب بیورو اور قومی احتساب کمیشن کی جگہ نیا ادارہ بنانے پر اتفاق کر لیا تھا۔ اس بات پر بھی غور ہوا تھا اورفیصلہ کیا گیا تھا کہ مجوزہ قومی احتساب کمیشن میں چیئرمین کی مرکزی حیثیت نہیں ہوگی بلکہ اس کی نگرانی اور دیکھ بھال ایک خودمختار کمیشن کرے گا۔ قومی احتساب کمیشن کے چیئرمین کی مدت تین سال ہوگی جبکہ چیئرمین نیب کی مدت چار سال ہوتی ہے۔ کمیٹی نے کرپشن کی تشریح اور کرپشن کے طریقہ کار پر بھی تبادلہ خیال کیا اور مخصوص تبدیلیاں اور چند اضافے تجویز کیے۔ کمیٹی اس معاملے پر سوچ بچار کے آغاز سے ہی بلاتفریق احتساب کے مسئلے پر تبادلہ خیال کرتی رہی ہے کہ ججوں اور جنرلوں کو بھی سول اینٹی کرپشن ادارے کے تحت  لایا جائے لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکی۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ’’اب کمیٹی کی غالب اکثریت کمیشن کے دائرہ کار کو جنرلز اور ججوں تک وسعت دینا چاہتی ہے لیکن اب تک اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ موجودہ نظام میں ججز اور جنرلز قومی احتساب کے قانون کے دائرے سے باہر ہیں اور اس کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ دونوں اداروں کا اپنا اندرونی احتساب کا نظام موجود ہے۔ پانچ جنوری کو قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے 20 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ نیب کے متنازع قانون میں ترمیم کی جاسکے۔ کمیٹی کو تین ماہ دیے گئے تھے کہ وہ اپنی رپورٹ تیار کر کے ضروری ترامیم کے لئے اسپیکر کے حوالے کرے۔ آئندہ ماہ کے اوائل میں کمیٹی اپنی تین ماہ کی مدت پوری کر لے گی تاہم توقع ہے کہ اپنے نامکمل کام کے پیش نظر اس کی مدت میں توسیع کر دی جائےگی۔ کمیٹی کے پہلے ہی 6 اجلاس ہوچکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تین مزید اجلاسوں میں کمیٹی اپنا کام مکمل کر لے گی۔ 
تازہ ترین