• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کو پاناما کیس میں تبدیل کر دینے والے اصلی پاکستانی اپوزیشن لیڈر عمران خان نے گزشتہ شام لاہور میں تحریک انصاف کے سیکرٹریٹ میں کچھ سینئر صحافیوں سے ملاقات کی۔ ان کی آمد پر جیسے کوئی میلہ لگا ہوا تھا۔ اس سیاسی و صحافی محفل میں وہ امید بہار سے سرشار نظر آئے۔ ویسے تو لاہور میں بہار اپنے جوبن پر ہے لیکن خان اعظم کی بہار اب پاناما کیس کا فیصلہ ان کے اہداف و امید کے مطابق آنا ہے۔ سو، وہ بڑے تازہ دم شاد و خرم داخل ہوئے تو لگا کہ قومی سیاست میں کوئی بہار آنے کو ہی ہے۔ پاکستان کے عوام دشمن بدبو دار نظام جسے حکمران بھی عوامی طیور دیکھتے ہوئے، گلاسڑا کہنے پر مجبور ہوگئے، کی بیخ کنی اور اس کی جگہ تازگی، ملکی سلامتی، قومی اتحاد و استحکام کے لئے ناگزیر ہوگئی ہے، لیکن پھر اسٹیٹس کو سیاست کے زور دار لیڈر لاہور کی بہاروں میں اعلان عام کر چکے ہیں کہ ’’ملک کا اگلا وزیراعظم بلاول زرداری ہوگا‘‘۔ ویسے کہا تو انہوں نے بلاول بھٹو ہے، لیکن بابا بلھے شاہ نے بھی تو کوئی غلط نہ کہا کہ خالی ورق کتاب نہ ہوندے۔ ادھر خان صاحب نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی حکمران شریف خاندان پر پھبتی کسی کہ اب تو شاہی خاندان میں شہزادی کو وزیراعظم بنانے کی تیاریاں زور پکڑ رہی ہیں، کیونکہ نوازرشریف پاناما کیس میں ڈس کوالیفائی ہو جائیں گے‘‘۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ مریم نواز ن لیگ کے خاتون پارلیمانی گروپ کے اجلاس کی صدارت کرتی ہیں، پارلیمانی اور جمہوری کلچر میں اس کی کوئی گنجائش بنتی ہے؟ خان صاحب نے پاناما کیس کا فیصلہ اپنی قانونی جدوجہد کے مقررہ ہدف کے مطابق آنے پر یقین کا اظہار کیا، کہا جج صاحبان جنہوں نے کیس کی سماعت کی ایمان دار ہیں۔ عام لوگوں کو ہی نہیں ان کے اپنوں کو بھی یقین ہے کہ پاناما کے حقائق کیا ہیں۔ اب یہ پھر قرضے لے لے کر اپنوں کے ضمیر کے سودے کررہے جو ویسے تو ان کے ساتھ رہ ہی نہیں سکتے۔ سو، یہ اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے عوامی پیسے کا استعمال کریں گے جو ان کا پرانا طریقہ واردات ہے۔
یہ تو درست کہ اسٹیٹس کو کی ہر دو روایتی جماعتیں جاری غیر جمہوری ’’نظام بد‘‘ کو جاری و ساری اور محفوظ رکھنے کے لئے اپنی سی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہیں۔ سندھ کے کیا شہروں اور کیا دیہات کے عوام کو موجودہ حالت زار سے دوچار کرنے کے بعد بھی آئندہ انتخابات میں بھی بلاول بھٹو یا زرداری کو وزیراعظم بنانے کا اعلان، دوسری جانب ن لیگی داخلی و تنظیمی سیاست سے لے کر بعض انتظامی معاملات میں محترمہ مریم نواز کا بڑھتا اثر، جس کی تصدیق اب بین الاقوامی ذرائع بھی کررہے ہیں، سے تو اس امر کی واضح تصدیق ہوتی ہے کہ جاری نظام بد کی ہر دو سیاسی قوتیں مطلوب عوامی جمہوری نظام کے مقابل خاندانی سیاست کو بڑھانے اور اسے قابل قبول بنانے میں جیسے یک جاں دو قالب ہوں۔ ایسے میں تابناک پاکستان کا خواب، خواب خرگوش ہی نہ بن جائے جبکہ پیدا ہوئے قدرتی حالات اور تشکیل پذیر نئی عالمی اور علاقائی صورتحال میں ’’تابناک پاکستان‘‘ کے بنتے نکلتے راستوں کے نتیجے میں بھاری بھر ہندو اکثریت کے خطے سے الگ ہو کر مملکت خداداد کے بنیادی تقاضوں اور اقبال کے خواب اور قائد کی بے مثال نتیجہ خیز جدوجہد کے مطابق ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ بننے کا وقت آن پہنچا ہے، ایسے میں پاکستان اور اقتدار و سیاست سے چمٹے خاندانوں کے جمہوریت مخالف عزائم مکمل بے نقاب ہیں۔
مسئلہ اور فکر مقابل دیانت دار انتھک اور اصلی اپوزیشن کی طاقت ور اسٹیٹس کو سے نپٹنے اور اس میں جکڑے پاکستان کو آزاد کرانے کے لئے سازگار حالات سے فائدہ اٹھانے کی لوکپیسٹی ہے۔ سو محفل میں ناچیز کو واضح کرنا پڑا کہ پاناما کیس پر عدالتی فیصلہ آپ اور قوم کی خواہش (فراہمی انصاف) کے مطابق ہوا تو بہت کچھ ہو جائے گا اور اگر آپ کی توقعات پوری نہ بھی ہوئیں تو عوام پر اس کی حقیقت اب بالکل آشکار ہے۔ ہر دو صورتوں میں عدالتی فیصلے کے گہرے اثرات مکمل قدرتی عمل ہوگا جسے کوئی نہ روک سکے گا۔ اس کی تاریخ مسخ نہ کی جاسکے گی اوراس میں عدلیہ کا رویہ، آپ (عمران خان) کا کردار اور حکمران خاندان کی پوزیشن بننے والی تاریخ کے اوراق میں روز روشن کی طرح ہی واضح ہوگی۔ پاکستانی تاریخ میں یہ پتھر پر لکیر ہوگیا کہ آپ پاناما لیکس کے پاکستانی حصے کا پیچھا نہ کرتے تو یہ دب کر مر جاتا۔ اب یہی پاناما ہماری تاریخ کا ایک زندہ حوالہ بنا رہے گا جو ہمارے بزرگوں کے آزادی اور جمہوری جذبے کے آنے والی نسل میں رواں دواں رہنے کی توثیق ہوگی۔
بندے کا خان اعظم سے استفسار یہ تھا کہ ’’پاناما کیس پچھلے ادوار میں کرپشن کی غضبناک کہانیوں کی ایک داستان ہے جب آپ (عمران خان) پاکستان کے کرکٹ ہونہار اور پھر ہیرو بن رہے تھے اور بنے۔ آج جبکہ آپ احتساب کی صدا بلند کرنے والے، اسٹیٹس کو کو للکارنے والے اور اس پر ضرب لگا کر راستے چٹخانے والے سیاست دان ہیں تو حکمرانوں کی آئین و حلف سے جاری بے وفائی اور اطلاق قانون کے کھلم کھلا دہرے معیار کی بنتی سچی کہانیاں جن کے ثبوت بہت واضح ہیں اور جن پر ہماری اعلیٰ عدالتیں برہم ہیں، اس کے خلاف پاناما کے متوازی ایک اور منتظم قانونی جدوجہد کیوں نہیں کرتے؟ اس پر آپ نہیں تو اور کون کچھ کرے گا، آصف زرداری یا مولانا فضل الرحمٰن؟ آپ نے ابھی خود فرمایا کہ قرضے لے کر یہ فقط اپنے اپنے منتخب اراکین کو ڈویلپمنٹ فنڈز لنڈھا رہے ہیں جبکہ وہ آئین کی رو سے فقط عوام دوست قانون سازی کے پابند ہیں جو انہوں نے ساڑھے آٹھ سال میں نہ ہونے کے برابر کی۔ سارے ملکی ادارے تباہ ہونے کا واویلا عدالتی سماعتوں میں مچ رہا ہے۔ قدم قدم پر آئین و قانون کی خلاف ورزی منتخب اور حلف بردار حکومتیں کررہی ہیں۔ اسٹیٹس کو کی اس دیدہ دلیری کا نوٹس کون لے گا، پاناما کیس کا نتیجہ آنے کے انتظار میں آئین و قانون کی پامالی آپ کی نظروں سے کیوں کر اوجھل ہے؟ اتناکچھ جھنجھوڑنے پر پہلو میں بیٹھے نعیم الحق بولے کہ ہم اسی تناظر میں دو اور رٹ پٹیشن کرنے والے ہیں۔ خان صاحب سنجیدگی سے سب کچھ سنتے سنتے بولے کہ ہم 40 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ لانے والے ہیں، بندہ بولا نہ جانے کب، انتخابات میں تو ڈیڑھ سال سے بھی کم رہ گیا۔ آپ ابھی تک الیکشن کمیشن کو ایمپاورڈ کرنے کے لئے کچھ نہیں کررہے۔ جبکہ بھارت میں اسی کمیشن کی امپاورمنٹ ہی ہے جو ہارنے والوں اور عوام سے انتخابی نتائج قبول کرا دیتی ہے۔ خان صاحب بولے، ہم نے کمیشن کو ایمپاورڈ کرا دیا تو یہ کمیشن کی امپاورمنٹ اپنے حق میں کرا لیں گے۔ یہ جو اب بندے کے تو پلے پڑا نہیں شاید کسی اور کے بھی، بھلا وہ کمیشن ایمپاورڈ کیسے ہوگا جسے کوئی فریق اپنے حق میں کرا لے۔ پھر بندے کا یہ استفسار بھی رہا کہ آپ کو پروپیپل قانون سازی کے بل ٹیبل کر کے قانون سازی کا عمل بڑھانا چاہئے تھا یا اکثریتی جماعت کے غیر جمہوری رویے کو کھل کر بے نقاب کرنا تھا۔ اس پر بھی خاموشی نے مایوس کیا۔ جناب خان صاحب ایک بار پھر.... پاکستان کو پاناما کے علاوہ اور بڑے روگ لگے ہیں، اپنے اپوزیشن کے کردار میں توازن پیدا کریں۔ پاناما کے حوالے سے بہت کچھ ہوگیا اور بہت کچھ ہوگا۔ اس کے انتظار میں ہزاروں قومی روگوں پر خاموشی اور ایک منظم قانونی جدوجہد (جس میں عدلیہ کا معیار فراہمی انصاف بھی واضح طور پر ٹیسٹ ہوگا) سے گریز مایوس کن ہے۔ وما علینا الاالبلاغ۔



.
تازہ ترین