• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہوریوں کو دو چیزوں کا بہت شوق ہے، ایک ٹائم پوچھنے کا اور دوسرا ٹائم کی پابندی نہ کرنے کا، کچھ لوگ ٹائم بہت شوق سے بتاتے ہیں بلکہ وہ اس کے علاوہ بہت سی معلومات فراہم کرتے ہیں مثلاً یہ کہ جس گھڑی سے آپ کو ٹائم بتایا جا رہا ہے وہ گھڑی کس کمپنی کی ہے اور اس کی کیا کیا خصوصیات ہیں، ایک دفعہ ایک صاحب سے میں نے ٹائم پوچھا تو انہوں نے ٹائم بتانے سے پہلے اس کی خصوصیات گنواتے ہوئے کہا کہ اس میں دوسری گھڑیوں کے علاوہ دو خصوصیات ایسی ہیں جو کسی اور گھڑی میں نہیں ملیں گی، ایک یہ کہ میں نے یہ گھڑی فٹ پاتھ سے صرف ڈیڑھ سو روپے میں خریدی تھی اور دوسری خصوصیت یہ کہ ایک سال ہو گیا ہے اور یہ گھڑی آج تک بند نہیں ہوئی۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے گھڑی اتار کر مجھے دکھائی، میں نے تجسس کی نظروں سے اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد ٹائم دیکھا تو پتا چلا کہ وہ بند پڑی تھی!
آج کل تو گھڑیاں مختلف صورتوں میں عام ہو گئی ہیں ایک وقت تھا یہ کسی کسی کے پاس ہوتی تھی چنانچہ ان دنوں یار لوگ بازوئوں کو ہوا میں لہراتے تھے، بلاوجہ ٹائم دیکھنے لگتے تھے تاکہ مخاطب کسی طرح ان کی گھڑی کی طرف متوجہ ہو اور ان سے ٹائم پوچھے۔ اگر سامنے بیٹھا ہوا شخص بہت ہی اذیت پسند ہوتا اور کسی صورت بھی ٹائم پوچھنے پر راغب نظر نہ آتا تو پھر ان صاحب کو خود بتانا پڑتا کہ کیا ٹائم ہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو پوچھنے پر بھی ٹائم نہیں بتاتے تھے، ان میں میرے ایک دوست بھی شامل ہیں جن سے آج بھی اگر ٹائم پوچھا جائے تو وہ ٹائم پوچھنے والے کو مخاطب کر کے کہتے ہیں ’’کیوں صاحب، میں آپ کو ٹائم کیوں بتائوں؟ کیا آپ نے میری گھڑی میں حصہ ڈالا ہوا ہے؟‘‘ ایک دفعہ تو میرے اس دوست نے ایک اسی طرح کے ’’سائل‘‘ سے کہا ’’معاف کیجئے، میری گھڑی ٹائم بتاتی نہیں، ٹائم پوچھتی ہے!‘‘ 
جہاں تک لاہوریوں کے ٹائم کی پابندی کا تعلق ہے، یہ اسے مشرقی آداب کے منافی سمجھتے ہیں! مجھے اکثر ملاقات کے خواہش مند افراد کے فون آتے ہیں، ان سے اس قسم کی گفتگو ہوتی ہے:
’’سر!میں آپ کا بہت مداح ہوں، آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’ضرور تشریف لائیں، آپ کتنے بجے آ سکیں گے؟‘‘ 
’’جی، میں کل کسی وقت حاضر ہو جائوں گا۔‘‘
اگر فرض کریں میں ان صاحب کے انتظار میں واقعی سارا دن گھر بیٹھا رہوں کہ ان کا فون کسی بھی وقت آسکتا ہے تو اس کے باوجود ضروری نہیں کہ وہ اس دن ضرور تشریف لائیں، بلکہ چند دن بعد اگر ان کا دوبارہ فون آتا ہے اور وہ ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو اس دن نہ آ سکنے کی معذرت تو کجا، وہ اس کا ذکر تک نہیں کریں گے۔ ویسے آپ لاہوریوں کی پھرتیاں دیکھیں تو لگے گا ان سے زیادہ مصروف اور وقت کا پابند اور کوئی نہیں۔ سینما میں قومی ترانہ بجنے پر کھڑے رہنے کی بجائے باہر نکلنا شروع کر دیں گے جیسے کسی بہت ضروری کام کے لئے ان کا وہاں وقت پر پہنچنا ضروری ہے، کوئی گاڑی تین چار گاڑیوں کو کٹ مارتی ہوئی ’’شوں‘‘ کر کے آپ کے قریب سے گزر جائے گی جیسے آگ بجھانے جا رہی ہو، ٹریفک سگنل سبز ہونے سے پہلے کھسک کھسک کر زیبرا کراسنگ کراس کر کے سڑک کے عین درمیان میں پہنچ جائیں گے جس سے دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک خودبخود رک جائے گا اور یوں یہ سرخ بتی کے ہوتے ہوئے بھی سبز بتی کے لطف اٹھائیں گے۔
لاہوریوں نے ٹائم کے حوالے سے بہت سے شعر بھی یاد رکھے ہوئے ہیں جو عموماً رکشوں، بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھے ہوتے ہیں۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
اور یہ شعر تو نیو خان کی بسوں پر اکثر لکھا نظر آتا ہے
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
مگر نہ تو کسی کو یہ فکر ہے کہ وقت گزرتا جا رہا ہے اور اگر ہم نے اس کا احساس نہ کیا تو خود ہم بھی ’’گزر‘‘ جائیں گے اور نہ ہی یار لوگ ایک پل کی خبر نہ ہونے کے باوجود لمبے لمبے پروگرام بنانے سے باز آتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ وقت ہماری خاطر رک جائے گا مگر وقت تو فرعون کے لئے بھی نہیں رکا جس نے اپنی خدائی کا اعلان کر رکھا تھا!




.
تازہ ترین