• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
4؍اپریل 1979ء کی صبح! ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار کو سرفراز کر چکے ہیں! برطانوی نشریاتی ادارہ وہ سائونڈ بائٹ سنا رہا ہے:
"This is not Law of God that poor should remain poor"
کہیں بیٹھے ایک قلمکار نے یاد دلایا’’عام آدمی سیاستدان کی ترجیح ہی نہیں، جسے ہم نے ’’بے دین‘‘ قرار دے کر مصلوب کیا، اس کے دل میں غریب کا درد تھا‘‘۔ ادھر کوئی تیرہ برس قبل 5؍جنوری 2004ء کی سویر، ڈیرہ غازی خان کے ایک مکین پاکستانی باشندے آصف رحیم مجددی نے ایک قومی اخبار کے ادارتی صفحہ پر جنرل (ر) مشرف کو مخاطب کیا ’’اگر وہ چاہیں تو تاریخ میں اپنا نام رقم کرا سکتے ہیں، موجودہ پارلیمنٹ کے ذریعہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کو واپس لے کر اور انہیں بری کر کے اس قومی سانحے سے احسن طریقے سے چھٹکارا مل سکتا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو کا جسد خاکی جو آج بھی سیاست کے کارزار میں بے گور و کفن پڑا ہوا ہے، عزت و وقار سے دفنایا جا سکتا ہے‘‘۔
38ویں برسی، 2017ء میں عباس مہکری نے ایک اور یاددہانی کرائی، کہتے ہیں، ’’برطانیہ کے نوبیل انعام یافتہ، فلسفی، ریاضی دان، مورخ اور ادیب برٹرینڈ رسل کو بہت پہلے پتہ چل گیا تھا ایوب کابینہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے بطور وزیر خارجہ برطرف کئے جانے پر ’’برٹرینڈ رسل نے عالمی رہنمائوں اور دنیا کے بڑے اخبارات کو خطوط لکھے تھے، ان کے خیال میں بھٹو ایک ایسے قوم پرست رہنما تھے جو پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کے سیٹ اپ میں رہتے ہوئے پاکستان کو ایک حقیقی خود مختار اور خوشحال بنانے کے لئے کوشاں تھے‘‘۔
کائنات میں وقت کی گھات جاری رہتی ہے، آصف رحیم مجددی نے پچیسویں برس انصاف کے قتل کا مداوا چاہا۔ 4؍ اپریل 1979ء کی شب سے پاکستان کے عوام اور پاکستان کی دھرتی بھی اس مداوے کے لئے احتجاجی آہ و بکا میں مبتلا رہتی ہے!
چنانچہ بالآخر کہیں 32برس کے بعد تاریخ کے قدموں کی خاموش چاپ نے وقت کو گھات لگانے کا موقع فراہم کر دیا۔ 2011ء کے ابتدائی عرصے میں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں بھٹو کیس ری اوپن کرنے کا ریفرنس وفاقی کابینہ کو بھیج دیا۔ کابینہ نے 28؍ مارچ 2011ء کو ریفرنس کی منظوری دی جس کے بعد 2؍ اپریل 2011کو سیکرٹری قانون مسعود چشتی نے ریفرنس رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس کی ابتدائی سماعت کے لئے 13؍ اپریل 2011ء کی تاریخ مقرر کی۔ ابتدائی سماعت کے دوران میں سپریم کورٹ نے موضوع کے تعین اور متعینہ قانونی سوالات کے سقم کا آئینہ دار ہونے کے باعث اس ہدایت کے ساتھ وکیل بابر اعوان کے حوالے کر دیا کہ ’’آپ اس متعینہ موضوع اور اس سے متعلق متعینہ قانونی سوالات شامل کریں‘‘ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق صدارتی ریفرنس کا یہ تقاضا پورا کرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان 21؍ اپریل 2011ء کی صبح عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔ عدالت نے مختصر جائزے کے بعد بھٹو کیس ری اوپن کرنے کا صدارتی ریفرنس سماعت کے لئے منظور کر لیا۔ عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائیکورٹ سے بھٹو کیس کا اصل ریکارڈ طلب کیا اور لارجر بنچ تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے 2؍ مئی 2011ء سے روزانہ سماعت کا حکم جاری کر دیا۔
وفاق کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے وہ 5متعینہ سوالات آئین کے آرٹیکل 186کے تحت تحریری طور پر پیش کر دیئے۔ وہ زیر مقدمہ متعینہ سوالات یہ ہیں:۔
(1) کیا ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا میں آئین میں بنیادی حقوق سے متعلق آرٹیکلز کے تمام تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے؟
(2)کیا یہ فیصلہ سپریم کورٹ سمیت ملک کی دوسری عدالتوں میں بطور نظیر پیش کیا جا سکتا ہے؟
(3) کیا مخصوص حالات میں دی گئی سزا کا کوئی جواز بنتا تھا اور کیا اسے قتل عمد قرار دیا جا سکتا ہے؟
(4)کیا ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی سزا میں اسلامی قانون کی پاسداری کی گئی؟
(5) جن شواہد اور مواد کی بنیاد پرذوالفقار علی بھٹو کو سزا دی گئی کیا وہ ریکارڈ کئے گئے تھے۔
صدارتی ریفرنس میں اسی متوقع بے انصافی کو ان الفاظ میں منعکس کیا گیا تھا کہ’’ٹرائل آزادانہ ماحول میں نہیں ہوا، ضیاء الحق کے دبائو پر فیصلہ سنایا گیا، نسیم شاہ نے دبائو کا اعتراف کیا تھا، مقدمہ دوبارہ چلا کر بھٹو کو بعد از مرگ بری قرار دیا جائے‘‘ وکیل ڈاکٹر بابر اعوان کے مطابق ’’عدالتی تاریخ پر سیاہ دھبے دھونے کے لئے یہ کام کیا، پھانسی کے فیصلے کو دنیا اور کسی عدالت نے تسلیم نہیں کیا۔ یہ اسلامی اعتبار سے بھی ناجائز ہے۔ تین ججوں نے بری کر دیا تھا‘‘۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے 28؍ مارچ 2011 کو ریفرنس کی منظوری اور ابتدائی سماعت کے لئے، عدالت عظمیٰ کی جانب سے 13؍ اپریل 2011ء کی تاریخ مقرر کرنے کے دوران میں ذوالفقار علی بھٹو کی 32ویں برسی پر اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے نظریاتی کرب کا اظہار کیا۔ خانوادئہ شہیداں گڑھی خدا بخش میں آصف علی زرداری کے اس خطاب کا ہر لفظ فضا میں چپکا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا’’ہم نے 1973ء کا آئین بحال کرنے کی بات کی تو سیاسی اداکاروں کو یقین نہیں تھا۔ میں نے بھٹو اور بی بی کو روز قیامت جواب دینا ہے، اس لئے ان کے خواب پورے کرنے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ بھٹو کا جو عدالتی قتل ہوا ہے وہ تاریخ سے مٹایا جائے۔ جس کے لئے میں نے ریفرنس بھیج دیا ہے، آج کی عدلیہ کو ہم نے بحال کیا، انہوں نے بھی شہیدوں کی طرح جلسے، لانگ مارچ کئے ہیں‘‘ یہ انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے سکھائے ہیں، ہم نے انہیں بھٹو کی ادا پر بحال کیا، میں جیالوں، بھٹو اور بے نظیر کے خون کے سبب وہاں بیٹھا ہوں جہاں سے ہمیشہ ہمارے خلاف فیصلے آئے، اب وہاں سے جئے بھٹو کے نعرے لگتے ہیں۔ بھٹو کے عدالتی قتل کے فیصلے کو کسی چھوٹے سے چھوٹے جج نے بھی تسلیم نہیں کیا، تو وہ کیسے جج تھے جنہوں نے ضیاء الحق کے پی سی او کو مانا تھا، ہم نے تاریخ سے ایک حرف مٹانے کی بات کی ہے، بھٹو کیس ری اوپن کرنے کا وعدہ ہم سے ہمارے بچھڑے دوست نواز شریف نے بھی کیا مگر وہ نہ کر سکے یا انہیں کرنے نہ دیا گیا، آئندہ سال جب ہم یہاں کھڑے ہوں گے تو یہاں کٹہرے سے تمام نام مٹا چکے ہوں گے یا سب کٹہرے میں کھڑے ہوں گے، ہم اخبار کی سرخیاں نہیں بناتے بلکہ اپنے لہو سے تاریخ لکھتے ہیں۔ بھٹو بننے کی کوشش تو سب لوگ کرتے ہیں، ان جیسا پیار بھی مانگتے ہیں مگر اس جیسی موت نہیں مانگتے، اب ریفرنس بھیجنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے، فیصلہ کرو کہ تم سے غلطی ہوئی اور معافی دینا ہمارا کام ہے!‘‘
تختہ دار کی بھینٹ چڑھنے سے تقریباً ایک برس پہلے، 21؍ مارچ 1978ء کو بھٹو صاحب نے کہا ’’میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا، اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کر لیتا، یہ اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کہیں کم اذیت اور بے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو سکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس مملکت اسلامیہ پاکستان کو راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم میں تعمیر کر دیا ہے۔ میں آج ’’کوٹ لکھپت‘‘ میں اپنے ضمیر کے ساتھ پُر سکون ہوں‘‘۔
بھٹو صاحب کو سزائے موت کے احکامات ’’واشنگٹن‘‘ سے آئے تھے یا ہماری آئی ایس آئی نے ضیاء الحق کو سزائے موت نہ دینے کا مشورہ دیا تھا، ایسے اور بھی بیسیوں سوالات پاکستانی تاریخ کے ظلم رسا حصے میں موجود ہیں، ان کا جواب ہوتا رہا، ہوتا رہے گا، تباہ کن قومی وقوع کا اصل محور کیا تھا؟
ضیاء الحق کی شخصیت! باقی سب قوم کی آہیں اور زمانے کی تاریخ ہے۔ یہ شخصیت، آپ ایک واقعہ سنئے، سابق وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی صاحب نے کافی عرصہ ہوا، ایک ہفت روزہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک واقعہ سنایا جس کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے گاڑی میں بیٹھے اپنے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر ظفر علی سے (5؍ اپریل 1979) کی صبح پوچھا ’’غالباً رات کو بھٹو صاحب کو پھانسی دیدی گئی ہے‘‘؟
یہ واقعہ ضیاء الحق کی شخصیت کی ہیبت ناک باطنیت کا محوری ثبوت ہے، ایک فاتح قہقہہ بہرحال لگایا جا سکتا ہے، ضیاء جیت نہیں سکے، کیونکہ، وقت گو آگے بڑھ گیا ہے، تاریخ اب بھی 4؍ اپریل 1979ء کے تختے پر رکی ہوئی ہے عدل کے غیر متنازع ہونے تک ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں جبکہ صدارتی ریفرنس دائر ہوئے چھٹا سال گزر رہا ہے!



.
تازہ ترین