• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کہا ہے کہ کوئی بھی مذہب خواتین پر تشدد، دست درازی یا تیزاب پھینکنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا ہمارے دین میں تو اس کی بہت سخت ممانعت ہے۔ یہ بات انہوں نے ملتان میں پہلے مرکز انسداد تشدد برائے خواتین کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہی۔ سلمان صوفی کی نگرانی میں حکومتِ پنجاب کا یہ قابلِ ستائش منصوبہ ہے جس کا مقصد مظلوم خواتین کے لیے ایک چھت کے نیچے دادرسی کا حصول ہے ۔ زیادتی کا شکار کوئی بھی خاتون اب تھانوں میں دھکے کھانے یا عدالتوں کے چکر لگانے کی بجائے اس دادرسی سینٹر میں آئے گی تو نہ صرف فوری طور پر ایف آئی آر کاٹی جا سکے گی بلکہ عدالتی کارروائی کا اہتمام بھی یہیں میسر ہو گا ۔ حکومت مائی باپ بن کر مسئلے کے حل تک اس دکھیاری کو یہاں رہائش اور خوراک بھی دینے کی پابند ہو گی۔ مقدمے کو طوالت سے بچانے کے لیے 90روز کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے ۔ مظلوم عورت صرف ٹیلیفون پر شکایت کرے گی۔ مرکز انسداد تشدد کی گاڑی مظلوم عورت کے گھر پہنچ جائے گی FIRکے ساتھ فوری میڈیکل رپورٹ بھی تیار کر لی جائے گی۔ سنٹر میں تعینات تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہو گا اور تمام پراسیس کمپیوٹرائزڈ ہو گا جس کا لنک وزیر اعلیٰ کمپلینٹ سیل سے براہ راست ہو گا ۔ اس سلسلے میں خاص بات یہ بھی ہے کہ قانون تحفظ حقوق نسواں بھی اس مرکز کے ساتھ ہی ملتان میں نافذ العمل کر دیا گیا ہے یہ امر بھی حوصلہ افزا ہے کہ اس نوع کے سنٹر پنجاب کے تمام اضلاع میں قائم کئے جا رہے ہیں اس طرح پہلے تجربے سے دیگر مراکز مستفید ہوتے چلے جائیں گے ۔
اخباری بیانات اور حکومتی اعلانات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں عورت کی مظلومیت قصۂ پارینہ ہے اب شاید یہاں خواتین کو Better half یا مراعات یافتہ طبقے کی حیثیت حاصل ہونے جا رہی ہے لیکن سچائی آج بھی اس کے برعکس ہے ہماری سوسائٹی آج بھی مرد کی برتری یا Male chauvinism کے نظریے پر استوار ہے ۔ بلاشبہ تعلیم ، شعور، آگہی یا تہذیب کے بڑھنے سے بہتری کے آثار ہویدا ہو رہے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی سوسائٹی کی بھاری اکثریت آج بھی عورت کو برابر کا انسان یا شہری تسلیم کرنے سے عاری و انکاری ہے ۔ ہم اپنی عمومی زندگی میں مذہب کی دیگر تعلیمات کا حوالہ دیں یا نہ دیں عورت کو ادھورا یا کمتر رکھنے کے لیے ہم فوراََ مذہبی حوالے تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں مثال کے طور پر مذہب یہ کہتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلم مرد اور عورت پر فرض ہے جبکہ اپنی حالت اس کے برعکس ہے سری لنکا جیسے ممالک بھی ہم سے کہیں آگے ہیں لیکن اس مقدس فرض یا مذہبی حکم کی عدم ادائیگی پر تو کبھی کسی کا فتویٰ صادر نہیں ہوتا الٹا جب یہاں لڑکیوں کے اسکولوں کو دھماکوں سے اڑایا جا تا رہا تو یہ عذر پیش کیا جاتا رہا کہ یہ دنیاوی تعلیم کے اسکول ہیں ہماری بچیوں کو تو دینی تعلیم لینی چاہئے۔
مذہب یہ کہتاہے کہ جھوٹ ، ملاوٹ، بے ایمانی ، بد تہذیبی یا ظلم و تشدد نہ کرو اب جو کلمہ گو ایسی بری حرکات کرتے ہیں ان کے خلاف فتاویٰ کیوں جاری نہیں ہوتے؟ البتہ اگر یہ کہا جائے کہ عورت کو برابر کا انسان مانتے ہوئے ۔حد تو یہ ہے کہ جب یہ کہا گیا کہ خواتین پر تشدد کی اجازت نہیں ہے چاہے وہ ہلکا ہو یا بھاری تو اس پر بھی دلیل بازی شروع ہو گئی حالانکہ کون نہیں جانتا ہماری ناخواندہ و نیم خواندہ سوسائٹی میں عورت پر ہاتھ اٹھانے کو مردانگی و بہادری کے معنوں میں لیا جاتا ہے اور غیرت کے نام پر عورتوں کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہے اس پر ہماری سوسائٹی کے ذمہ داران کا کلیجہ منہ کو کیوں نہیں آتا ہے کاش وہ یوں مظلومیت سے مرنے والیوں اور ذلت کی زندگی جینے والیوں کو اپنی بچیاں خیال کریں۔ ابھی ہماری نظروں سے ایک خبر گزری ہے کہ لاہور کے فیکٹری ایریا میں بیوٹی پارلر پر کام کرنے والی ایک بد قسمت 30سالہ خاتون کو اس کے سسر اور دیور نے غیرت کے نام پر بے دردی سے قتل کر دیا ہے۔ اسی طرح چوہنگ کے علاقے میں ایک شخص نے معمولی تلخ کلامی پر اپنی پچاس سالہ بیوی کو فائرنگ کرتے ہوئے قتل کر دیا لاش مردہ خانے چلی گئی جبکہ خاوند صاحب نے ’’بہادری کے ساتھ‘‘ گرفتاری دے دی۔ رائیونڈ کے گاؤں کھنڈ میں ’’بلند کردار‘‘ ایک شخص نے کلہاڑی کے وار کرتے ہوئے اپنی 19سالہ بیٹی کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ رپورٹ کے مطابق مقتولہ کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی۔چند روز قبل سمن آباد لاہور سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ نئی نویلی دلہن کو شادی کے چار روز بعد دبئی پلٹ شوہر نے اس بنا پر قتل کر دیا کہ وہ دبئی میں اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا اور ماں نے زبردستی اس کی شادی اپنی بھتیجی سے کر دی اور اس سفاک آدمی نے اپنی سوئی ہوئی بیوی کے منہ پر تکیہ رکھ کر اسے قتل کردیا۔ جھنگ کے علاقے منڈودیرد سے بھی ایسی ہی خبر ہے کہ شفیق نے اپنی 17سالہ دلہن کو گلا دبا کر قتل کر دیا اور فرار ہو گیا۔
ہم اپنے خادمِ پنجاب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ خواتین کو سوسائٹی میں باوقار مساوی مقام دلانے کے لیے آپ کی کاوشیں بلاشبہ قابلِ ستائش ہیں آپ انہیں جاری رکھتے ہوئے اس بات کا بھی اہتمام کیجیے کہ عورتوں کے حوالے سے مردوں کی ظالمانہ ذہنیت کو کیسے تبدیل کیاجا سکتا ہے ۔ جب تک ان کے قلوب و اذہان میں یہ سوچ راسخ نہیں ہوتی کہ عورت کمتر نہیں اور نہ ان کی ملکیت ہے بلکہ ہمارے برابر کی باوقار انسان ہے وہ بھی اپنے حوالے سے سوچ بچار اور پسند نا پسند کا اُسی طرح حق رکھتی ہے جس طرح مر د حضرات رکھتے ہیں حقیقی تبدیلی نہیں آ سکے گی ضروری ہے کہ اس سوچ کو عام کرنے کے لیے اس کے خدوخال ابتدائی درسی تعلیم ہی میں نمایاں کر دیے جائیں ۔ بچوں کے سلیبس میں انسانیت کو بھی کچھ جگہ دے دی جائے جب تک ہم انسانوں کو انسان نہیں بنائیں گے خواتین اقلیتوں اور دبے ہوئے طبقات کی بیچارگی دور نہ ہو سکے گی۔



.
تازہ ترین