• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک امریکہ تعلقات ۔ پاکستانی دانشوروں کا ’’مونو لاگ‘‘

معاملہ قدرے تفصیل طلب اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالےسے واشنگٹن میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے منعقدہ مذاکرہ میں شریک ممتاز پاکستانی شخصیات کے ’’مونو لاگ‘‘ کا ہے لہٰذا کسی تمہید اور ’’بیک گرائونڈ ‘‘ کے بغیر ہی گفتگو ہو گی۔ ویسے'بھی 13اپریل کو ہونے والے اس مذاکرہ کے موقع پر ’’پاکستان ٹوڈے ‘‘کے عنوان سے پاک، امریکہ تعلقات بارے جو 80صفحات پر مشتمل ’’اسٹڈی رپورٹ‘‘ تقسیم کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے آغاز میںہی رپورٹ کی سفارشات اور نتائج کو اختصار سے بیان کرنے کے بعد موضوعات کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ طریقہ مجھے بھی پسند آیا اور اس کالم میں کچھ ایسا ہی انداز اختیار کرنا میری ضرورت بھی ہے اور پسند بھی۔ میں نے فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے صبح 9تا4اور متعدد موضوعات پر مختلف اہم سیشن والے مذاکرہ کو ’’مونولاگ ‘‘ اس لئے قرار دیا ہے۔ کہ اس مذاکرہ میں پاک، امریکہ تعلقات کی نئی فریق صدر ٹرمپ کی حکومت ہے اور پاک، امریکہ تعلقات کے مستقبل پر ہونے والی اس گفتگو میں پاکستانیوں کا موقف سننے اورجواب دینے یا ردعمل ظاہر کرنے یا اپنا موقف بیان کرنے کے لئے ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے کسی نمائندے نے شرکت نہیں کی۔ جب ڈائیلاگ کیلئے معاملہ کا دوسرا فریق نہ شرکت اور نہ کوئی موقف دے تو اسے ’’مونو لاگ‘‘ ہی کہنا چاہئے۔ مگر یہ مذاکرہ انتہائی مفید اور اہم یوں تھا کہ اس سے خطاب کرنے والوں میں جنرل (ر) پرویز مشرف، جنرل (ر) اسد درانی، شاہد جاوید برکی، سلمان صوفی، مالیکا بخاری، شاہد خاقان عباسی، شاہ محمود قریشی، جاشوا وہائٹ، شمائلہ چوہدری، کارلا فری مین اور ڈینیل مارکی شامل تھے۔ جبکہ ڈاکٹر شیریں طاہر خیلی اور اہد جاوید برکی مذکورہ اسٹڈی رپورٹ کے مصنف اور مذاکرہ سے خطاب کرنے والوں میں بھی شریک تھے۔ یونیورسٹی کے ڈین ولی نصر نے افتتاحی ریمارکس میں ہی بہت کچھ کہہ ڈالا۔ امریکی ناموں سے کوئی غلط تاثر نہ لیں۔ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا۔ ہاں ْ اس اجتماع میں پروفیسرا سٹیفن کوہن اور دیگر امریکی دانشور شخصیات بھی سامعین کے طور پر شریک تھیں اور مجھےبھی اپنے ایک ماضی کے فکری مخالف اور اب دوست امریکی دانشور باب ہیتھوے سےملاقات اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ وہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے واشنگٹن کے دانشورانہ اور حکومتی حلقوں میں تعارف کے محتاج نہیں۔ جوانی میں80کے عشرے میں وہ سخت پاکستان مخالف کانگریس مین اسٹیفن سولارز کے معاون خصوصی اور ترجمان تھے۔
جنرل ( ر) پرویز مشرف نے خصوصی مقرر کے طور پر مذاکرے کا آغا ز کرتے ہوئے فارن انسٹی ٹیوٹ کی شائع کردہ ’’اسٹڈی رپورٹ ‘‘ کو موضوع بنایا اور پاک۔ امریکہ تعلقات کے اتارچڑھائو کا ذکر کیا۔ 1965تک پاک، امریکہ تعلقات کو بہترین قرار دیا اور 1965کی پاک بھارت جنگ، امریکی پابندیوں اور پھر ضیا دور میں بہتر پاک، امریکہ تعلقات کا ذکر کیا۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیا کے ادوار کے سرسری ذکر کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے دور کے پاک امریکہ تعلقات پر مرکوز ہونے سے قبل ایک انتہائی معقول سوال اٹھا گئے کہ کھاریاں اور ملتان کی فوجی چھائونیاں امریکی امداد تعاون سے تعمیر ہوئی ہیں۔ اور یہ دونوں چھائونیاں بھارت سے دفاع اور ممکنہ جنگ میں کام آتی ہیں کیا اس سے یہ واضح نہیں کہ امریکہ بھارت کے خلاف امریکی اسلحہ استعمال کرنے کا مخالف نہیں ہے ؟ یہ سوال اہم، مفید اور امریکیوں سے جواب طلب ہے کیونکہ ماضی میںامریکہ نے پاکستان پر بعض مرتبہ پابندی کا جواز یہ بھی پیش کیا کہ پاکستان نے امریکی اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال کیا ہے۔ انہوں نے رپورٹ کے تناظر میں اپنے دور حکومت کی کارکردگی اور ’’کنٹری بیوشن ‘‘ کو تفصیل سے بیان کر کے رپورٹ کے اختصار کا وقتی مداوا کر دیا۔ پرویز مشرف نے یہ بات امریکی سرزمین پر برملا کہی کہ امریکہ نے افغانستان میں سنگین غلطیاں کی ہیں۔ انہوں نے طالبان پر حملہ کر کے جنگی فتح تو بہت جلد حاصل کر لی کیکن اس جنگی فتح کو سیاسی فتح میں بھی تبدیل کرنے میں سستی اور غفلت برتی ہے۔
جنرل (ر) اسد د رانی فوجی کیرئیر کے علاوہ سفیر برائے امریکہ، نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور پاک بھارت بیک ڈور ڈپلومیسی کی ذمہ داریاں بھی نبھا چکے ہیں۔ پاک، بھارت تعلقات میں امریکی نقطہ نظر سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ جنرل محمود اسد درانی کا موضوع ’’آج کی پاکستان آرمی اور اس میں آنے والی تبدیلیاں ‘‘تھا۔ فوج میں اپنی 37سالہ سروس کے آغاز کے وقت پاک آرمی کی حیران کن زبوں حالی سے آغاز اور فوج کی حاصل کردہ اور سجی ہوئی تمام ٹرافیوں کو آزادی پاکستان سےقبل کے برطانوی راج میں حاصل کردہ ٹرافیاں بیان کرتے ہوئے ان ابتدائی ایام کی فوج میں برطانیہ سے وفاداری کے جذبات کا عروج بھی بیان کیا اور برطانوی ورثہ ’’یعنی سولجر اینڈ جینٹلمین‘‘ کے فوجی تصور کو بھی ان ایام کی فوج کا ماٹو بتایا۔ ساتھ ہی ساتھ فوج میں مذہب کے رول کو انتہائی معمولی بیان کیا۔ پیٹسن ساخت کے ٹینکوں کی پاک فوج میں امریکی امداد سے شمولیت کے مرحلے کو جنرل درانی نے پاک فوج میں ہتھیاروں اور سوچ کی تبدیلی کا مرحلہ قرار دیا۔ اسی طرح انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ فوج میں جہاد کی اسپرٹ جنرل ضیا کے دور سے بھی پہلے موجود تھی جسے گاہے بگاہے 1962اور دیگر مواقع پر استعمال کیا گیا مگر فوج لبرل تھی۔ اپنے بیان میں توازن کے لئے جنرل(ر) درانی نے کہا کہ 1965میں بھارتی فوجی کی قیادت بھی اتنی بہتر نہیں تھی۔ پاک فوج کو لاحق موجودہ چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے جنرل (ر) درانی نے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے ان میں (1) پاکستان میں داخلی اور سرحدی پار طالبان (2) بھارت سے خطرہ (3) سویلین اداروں میں تنزلی شامل ہیں اور ساتھ ہی فوجی ’’ٹیک اوور ‘‘ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ ان خطرات کی اصلاح اور ان پر قابو پانا ہے۔ مگر یہ جواب ادھورا رہنے دیا کہ اصلاح کون اور کیسے ؟
دو ریٹائرڈ جنرلوں کے بعد بھٹو جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے بارے میں کتابوں کے مصنف اور ورلڈ بینک کے سابق نائب صدر شاہد جاوید برکی نے پاکستانی معیشت کے حوالے سے گفتگو کی، وہ کچھ عرصہ پاکستان کے وزیر خزانہ بھی رہے ہیں اور ’’اسٹڈی رپورٹ ‘‘ جس کا ذکر میں نے اس کالم میں کیا ہے اس کے شریک مصنف بھی ہیں جبکہ پاکستانی نژاد امریکی سابق سفیر طاہر شیریں خیلی رپورٹ کی دوسری مصنفہ ہیں۔ شاہد جاوید برکی نے پاکستانی معیشت کے بارے میں امریکی میڈیا کی مایوسانہ رپورٹنگ سے کھل کر اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی معیشت نہ تو کمزور ہے نہ ہی ناکام ہے بلکہ صورتحال بہتر اور مثبت سمت میں ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار بھی دیئے۔ یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا ریکا رڈ خراب ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس مرتبہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ 7سال تک چین میں ورلڈ بنک کے ڈائریکٹر متعین رہنے والے شاہد جاوید برکی نےچین پاکستان سی پیک کے بارے میں غلط تاثرات و شبہات کو مسترد کرتے ہوئے اسے اہم اور مفید پروجیکٹ قرار دیا۔ چینی انتہائی حساس قوم ہیں اور سمندر کی بجائے پہلی مرتبہ زمینی راستوں سے تجارت کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں تاکہ کوئی مخالف قوم چین کا گھیرائو (بلا کیڈBlocked) نہ کر سکے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر پاکستان نے ترقی کرنا ہے تو پھرامریکی امدادپر انحصار ختم کرنا ہو گا۔ بھارت کے بعد پاکستان انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دوسرا بڑا مرکز بن رہا ہے پاکستان کی جی ڈی پی کا30فیصد 70ارب ڈالرز بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی فراہم کر رہے ہیں۔ شاہد جاوید برکی کا استدلال ہے کہ اب پاکستان کے مقابلے میں امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے۔
میرے خیال میں پاکستانی میڈیا اور دانشوروں کو اس بات کا تجزیہ تنقید اور تصدیق یا تردید کا منطقی اور مدلل جواب عوام کو ضرور فراہم کرنا چاہئے کہ آخر گزشتہ 70سال کے مقابلے میں اب امریکہ کو پاکستان کی کہیں زیادہ ضرورت کہاں، کیسے اور کیوں آن پڑی ہے؟ مجھے پاکستان میں امریکہ کی سابق سفیر رابن رافیل، ممتاز دانشور باب ہیتھوے اور متعدد دیگر امریکیوں سے بھی گفتگو کرنے کے مواقع ملے۔ ان کا تاثر بھی یہی ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں اب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت زیادہ ہے۔ پاکستانی حکمران اور پالیسی ساز بھی اس کا تجزیہ کر کے ٹرمپ حکومت سے مذاکرات اور فیصلوں میں ٹھنڈے دل واعتماد سے فیصلے فرمائیں۔
سیمینار میں پاکستان کے لحاظ سے ایک انتہائی نازک اور متنازع موضوع حقوق نسواں اور مرد و زن کی مساوات کا موضوع تھا۔ جس کیلئے صوبائی وزیر اعلیٰ کے مشیر اور خواتین کی بہتری کے لئے متحرک ہونے کے باعث امریکی حلقوں میں بھی مقبول اور دانش و استدلال میں بھی معقول رویے کے حامل سلمان صوفی پی ٹی آئی سے وابستہ خاتون قانون داں ملیکا بخاری نے خطاب کیا جبکہ پٹرولیم کے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے انرجی گیس اور ملحقہ امور پر اور پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پاکستانی موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے اہم نکات بیان کئے اور پاک امریکہ تعلقات پر خطاب کیا جبکہ جنوبی ایشیا اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ہیلری کلنٹن سیکرٹری خارجہ کے دورمیںا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ شمائلہ چوہدری اور خطے میں چین کے رول کے حوالے سے بھی فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر کار لا فری مین اور گلوبل پالیسی فورم کے ڈائریکٹر ڈینیل مارکی پر مشتمل پینل نے اظہارخیال کیا۔ ڈاکٹر شیریں طاہر خیلی اس مذاکرہ، پاکستان ٹوڈے، رپورٹ اور دیگر تمام امور کی علمی اور انتظامی مرکز و محور تھیں۔ وہ ماضی میں بھارتی لابی کی مخالفانہ مہم کا شکار ہونے کے باوجود تین امریکی صدور کے ادوار میں اہم حکومتی ذمہ داریاں ادا کر چکی ہیں اور سیاسیات کی ماہر استاد اور اسکالر بھی ہیں۔
پاکستان کی چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ڈاکٹر رضی الدین صدیقی مرحوم کی صاحب زادی اور امریکی سیاسی نظام سے بخوبی واقف عالمی امور کی ماہر ہیں۔ شاہد جاوید برکی اور شیریں طاہر خیلی کی مشترکہ 80صفحات کی پاک امریکہ تعلقات پر مستقبل کی نشاندہی کے ساتھ شائع کی جانے والی ’’پاکستان ٹو ڈے‘‘ نامی رپورٹ پاکستان کے پالیسی ساز افراد اور اداروں کے لئے خاصی مفید ثابت ہو گی۔ لہٰذا یہ مذاکرہ بھی انتہائی مفید تھا مگر یہ تمام پاکستانی موقف تھا جس کو سننے یا جوابی موقف دینے کے ذمہ دار فریق یعنی ٹرمپ انتظامیہ کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا لہٰذا اسے ایک مفید ’’مونو لاگ‘‘ کہنا چاہئے۔

.
تازہ ترین