• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رینجرز کے اختیارات کا تنازع ایک بار پھر کراچی میں جاری ہے اور شہری حالات کے ازسرنو خرابی کے اندیشے سے پریشان ہیں۔ تین سال پہلے سنگین جرائم کے خلاف وفاق نے حکومت سندھ کے تعاون سے رینجرز کی نگرانی میں جو آپریشن شروع کیا تھا اس سے پہلے ملک کا یہ سب سے بڑا شہر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، زمنیوں پر ناجائز قبضے اور اسٹریٹ کرائمز کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ خوف و دہشت پھیلا کر ہڑتال کے نام پر شہر بند کرانا روز کا معمول تھا لیکن رینجرز کی نگرانی میں ہونے والے آپریشن نے جلد ہی شہر کو اس کی رونقیں واپس لوٹادیں اور آج کراچی میں کاروبار، دفاتراور تعلیمی ادارے ہر قسم کے خوف سے آزاد ہیں۔ تاہم امن وامان کی یہ صورتحال پائیدار بنیادوں پر اسی وقت استوار ہوگی جب پولیس کے محکمے کو سیاسی اثرات سے پاک کرکے اہلیت اور دیانت داری کے اصولوں پر ازسرنو تشکیل دیا جائے اور پولیس رینجرز کی جگہ لینے کے لائق ہوسکے۔ اور بہرحال ایسا اب تک نہیں ہوسکا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ رینجرز کے ان ہی اختیارات کے ساتھ کام کرنے کے مواقع حاصل رہیں جو کراچی آپریشن کے آغاز میں اسے دیے گئے تھے اور چند روز پہلے تک حاصل تھے۔لیکن عجیب بات ہے کہ ہربار تین ماہ کی مدت پوری ہونے کے بعد جب رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی ضرورت پڑتی ہے تو وفاق اور صوبے کے درمیان تنازع پیدا ہوجاتا ہے۔ پندرہ اپریل کو رینجرز کے اختیارات کی مدت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر یہی صورت حال جنم لے چکی ہے ۔ حکومت سندھ نے رینجرز کو دفعہ147کے تحت پولیس جیسے اختیارات دینے کا اعلان کیا ہے جنہیں قبول کرنے سے رینجرز نے انکار کردیا ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اختیارات کے بغیر رینجرز کو سڑکوں پر کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی کے امن کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکام اس تنازع کو جلداز جلد حل کرکے کراچی کے امن کو یقینی بنائیں کیونکہ یہ قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے۔

.
تازہ ترین