• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دورِ حاضر میں معاشرے میں امن و امان کی فضا برقرار رکھنے کیلئے انصاف کی بر وقت اور فوری فراہمی وقت کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہے، مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں قانونی پیچیدگیوں، ججوں کی تعداد کم اور مقدمات زیادہ ہونے کی وجہ سے انصاف کا حصول اور فراہمی ایک مشکل امر بن چکا ہے۔ اِس سنگین صورتحال کے پیش نظر قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی وجوہات پوچھی گئیں تو اُنکا کہنا تھا کہ ججوں کی تعداد کم ہونے اور دیگر کئی ایک وجوہات کی بِنا پر بڑی تعداد میں مقدمات زیر التواء ہیںجن کو نمٹانے کیلئے وزارت قانون کی طرف سے شام کو عدالتیں لگانے کی تجویز کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں انصاف کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مدعی کے مرنے کے بعد بھی مقدمہ ختم نہیں ہوا۔ تین ، تین نسلیں ایک ہی مقدمہ کے پیچھے اپنی ساری جمع پونجی لگا دیتی ہیں ، مگر اُنہیں انصاف میسر آتا ہے نہ ہی مقدمہ ختم ہوتا ہے۔زیر التوا مقدمات کی زیادہ تعداد ماتحت عدالتوں میں ہے۔ وہاں سے جو فیصلے ہوتے ہیں انہیں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کی بھی گنجائش ہے جو قانوناً درست ہے۔ مگر اس سے عدلیہ پر کام کا بوجھ بڑھتا ہے۔ نتیجتاً مقدمات کی سماعت اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پس منظر میں شام کو عدالتیں لگانے کی تجویز قابل تحسین ہے ۔شام کو عدالتیں لگانے کے لئے ججوں اور عدالتی عملے کی تعداد بڑھانا پڑے گی کیونکہ ان کی موجودہ تعداد اس اضافی کام کے لئے کافی نہیں ہو گی۔ توقع ہے کہ حکومت عوام کو حقیقی معنوں میں انصاف کی بروقت اور فوری فراہمی کے لئے شام کی عدالتوں کا فیصلہ معاملے کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر کرے گی۔

.
تازہ ترین