• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے یہ ریمارکس دیئے تھے کہ اس کیس کا ایسا فیصلہ ہو گا ، جو سالوں تک یاد رکھا جائے گا ۔ پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد یہ بات درست ثابت ہوئی ہے کیونکہ یہ فیصلہ پہلا ہے ، جس پر تمام فریقین مٹھائی بانٹ رہے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ فیصلہ سالوں نہیں بلکہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ جب بھی کسی کے فیصلے یا بات سے سارے فریقین خوش ہوں گے ، اس وقت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مکمل فیصلہ نہیں ہے ۔ فیصلہ آنا ابھی باقی ہے ۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پاناما کیس کے اس ’’ ادھورے ‘‘ فیصلے میں بچ گئے ہیں ۔ مکمل فیصلے میں کیا وہ بچ سکیں گے ۔ یہ بہت اہم سوال ہے ۔ مکمل فیصلہ اس وقت آئے گا ، جب سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) اپنی تحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی لیکن اب تک جتنا فیصلہ بھی آیا ہے ، اس نے اپوزیشن کو سیاسی ، اخلاقی اور قانونی جواز فراہم کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرے بلکہ اس مطالبے کی عوامی تائید حاصل کرنے کا ماحول بھی بن گیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا مکمل فیصلہ آنے تک حالات کیا سیاسی رخ اختیار کرتے ہیں کیونکہ فیصلے سے سیاسی ماحول بہت تبدیل ہو گیا ہے ۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے منقسم فیصلے سے وزیر اعظم کی فتح ہوئی ہے لیکن فیصلے پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی طرف سے کوئی باقاعدہ اور فوری ردعمل سامنے نہ آنے کے بعد وہ لوگ بھی پریشان ہیں ، جو یہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیر اعظم کی فتح ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا فوری ردعمل سامنے نہ آنے سے ان حلقوں کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے ، جو یہ کہتے ہیں کہ فیصلہ وزیر اعظم کے حق میں نہیں ہے ۔ وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور شریف خاندان کے دیگر لوگوں کو فیصلے پر جس ردعمل کا اظہار کرنا چاہئے تھا ، وہ نہیں کیا گیا ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم شام 7 بجے قوم سے خطاب کریں گے لیکن قوم سے خطاب تو درکنار ، وزیر اعظم کی طرف سے کوئی باقاعدہ سرکاری بیان بھی نہیں جاری کیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلے سے پریشان ہیں ۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کیا ہو سکتی ہے اور اس کی بنیاد پر سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ کیا ہو سکتا ہے ، اس حوالے سے کوئی دو ٹوک رائے قائم کرنا قبل ازوقت ہو گا مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حتمی فیصلے کے رخ کا تعین سپریم کورٹ کے 20 اپریل کے فیصلے میں کر دیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ میں سے دو سینئر ترین جج صاحبان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جناب جسٹس گلزار احمد نے نہ صرف یہ قرار دے دیا ہے کہ وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے بلکہ انہوں نے وزیر اعظم کو سزا بھی سنا دی ہے اور یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ وزیر اعظم نااہل ہو گئے ہیں۔ لارجر بنچ کے باقی تین معزز جج صاحبان نے بھی ان دو سینئر جج صاحبان کی رائے کو مسترد نہیں کیا بلکہ اپنے فیصلے میں یہ کہا ہے کہ وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لئے پیش کردہ دستاویزات اور شواہد کی مزید تحقیقات کر لی جائے ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قائم کردہ جے آئی ٹی کو بھی 13 سوالوں کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اور اس لحاظ سے جے آئی ٹی کا دائرہ اختیار محدود ہے ۔ یہ جے آئی ٹی معاملے کی ازسر نو تحقیقات نہیں کرے گی کیونکہ سپریم کورٹ پہلے ہی بہت سی تحقیقات کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ اگرچہ ٹرائل کورٹ نہیں تھی لیکن پٹیشنرز نے جوڈیشل کمیشن بنانے سے انکار کیا تھا اور سپریم کورٹ سے ہی استدعا کی تھی کہ وہ ٹرائل بھی کرے اور فیصلہ بھی کرے ۔ تحقیقات کا بہت سا کام ہو چکا ہے اور تحقیقات کا رخ بھی متعین ہو چکا ہے ۔ سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے 13 سوالات میں کوئی بھی ایک سوال ایسا نہیں ہے ، جس کا جواب سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے کسی بھی معزز رکن کے فیصلے کو الٹ دے ۔ جے آئی ٹی متعین رخ اور محدود مینڈیٹ پر تحقیقات کرے گی ۔
وہ وقت بہت دور ہے ، جب جے آئی ٹی کی رپورٹ آئے گی کیونکہ سپریم کورٹ کے 20 اپریل کے فیصلے کے بعد سیاسی حالات وزیر اعظم مخالف قوتوں کے حق میں چلے گئے ہیں اور اپوزیشن کے اس مطالبے کو سیاسی ، قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیں ۔ وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ اب منتخب ایوانوں میں بھی شروع ہو گیا ہے جبکہ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں ایوانوں سے باہر بھی اس مطالبے کی تائید میں عوام سےسڑکوں پر آنے کی اپیل کر رہی ہیں ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہمارے خطے میں اسی طرح کی صورت حال پیدا ہوئی اور جنوبی کوریا کی خاتون اور مقبول صدر پارک گیون ہائی (Park Geun-hye ) کو کرپشن کے ایک کیس میں اسی سپریم کورٹ نے برطرف کر دیا ، جو پہلے اپنے ایک فیصلے میں برطرف نہیں کر سکی تھی کیونکہ جنوبی کوریا کے عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے ۔ پارلیمنٹ میں صدر پارک کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور ہوئی ، جس میں ان کی پارٹی کے ارکان نے بھی ان کے خلاف ووٹ دیا ۔ یہ مواخذے کی تحریک بھی عوامی احتجاج کے دباؤ پر لائی گئی تھی ۔ مواخذے کی تحریک کو صدر کی طرف سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ کے لئے آسانی ہوگئی ۔ اس سپریم کورٹ نے کرپشن کے کیس میں پہلے تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن جب مواخذے کی تحریک کو چیلنج کرنے کا کیس سپریم کورٹ کے سامنے آیا تو سپریم کورٹ نے اسے درست قرار دیتے ہوئے صدر پارک کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے بلکہ صرف ایک ماہ 13 دن پرانی بات ہے ۔



.
تازہ ترین