• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدان انسداد بدعنوانی کے اداروں میں اصلاحات کے خواہشمند نہیں

اسلام آباد(انصار عباسی)پاناما فیصلے کے بعد کی صورتحال میں نمایاں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف اپنی کیچڑ اچھالنے کی گندی مہم ازسرنو شروع کر دی ہے جبکہ پارلیمنٹ میں اپنی بھاری تعداد میں موجودگی کے باوجود ان میں سے کوئی جماعت ملک کے انسداد بدعنوانی کے نظام میں اصلاحات کی خواہش مند نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کو بدعنوان ثابت کرنے کے لئے الزامات اور جوابی الزامات لگائے میں ملوث ہیں لیکن ان میں احتساب کے ایسے نظام کو ترقی کے عزم کی کمی ہے جو قابل بھروسہ، خود مختار اور اتنا طاقت ور ہو کہ کسی خوف یا التفاف کے بغیر بدعنوانی پر نظر رکھ سکے۔ خواہ وہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن ہو یا اپوزیشن جماعتیں بشمول پی ٹی آئی، پی پی پی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم وغیرہ ، کسی کو بھی انسداد بدعنوانی کے موجودہ اداروں پر بھروسہ نہیں ہے، اس کے باوجود ان اداروں میں نہ تو اصلاحات کی جاتی ہیں اور نہ ہی ان کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اداروں کی تعمیر میں لاتعلقی اور بے حسی کی وجہ سے یہ تاثر مزید گہرا ہوتا ہے کہ سیاستدان کرپشن کی روک تھام میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس کے بجائے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کرپشن کے الزامات کو اس وقت استعمال کرتے ہیں جب یہ ان کی سیاست کے لئے موزوں ہوتا ہے بصورت دیگر وہ اپنے درمیان موجود قومی دولت لوٹنے والوں کو پکڑنے یا سزا دینے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران فاضل عدالت نے پاناما کیس کی سماعت کرتے ہوئے بار بار انسداد بدعنوانی کے ریاستی اداروں بشمول نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ معزز ججوں نے کئی مرتبہ افسوس کا اظہار کیا کہ متعلقہ سرکاری ادارے پاناما پیپرز میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کے فیصلے میں بھی یہی عکاسی ہوتی ہے۔ ٹیکس چوری کے الزامات، پاکستان سے غیرقانونی ترسیل زر، پاکستان میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے ذریعے سرمائے کی مشتبہ انداز میں آف شور کمپنیوں میں منتقلی کی متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بشمول نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر، ایس بی پی اور سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ذریعے تحقیقات کی جاسکتی تھیں۔ تاہم ان اداروں کی جانب سے معزز عدالت کو اطمینان دلانے کے لئے بامقصد تحقیقات نہیں کی گئیں۔ پاناما پیپرز کا مسئلہ تمام متعلقہ پاکستانی حکام بشمول نیب، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آر کے لئے ایک ’’کلوز چیپٹر‘‘ بنا رہا۔ میڈیا اور سیاستدانوںکے انتہائی دباؤ کے بعد پانچ ماہ گزرنے کے بعد معاملہ اٹھایا تھا۔ تاہم ریاست کے دو اعلی ترین اینٹی کرپشن کے اداروں نیب اور ایف آئی اے نے کبھی اس معاملے کی تحقیقات شروع کر نے پر بھی غور نہیں کیا۔ حکومت تو اداروں کی تعمیر میں دلچسپی نہیں دکھا رہی اور اپوزیشن بھی اداروں میں اصلاحات کے مقصد کے لئے کوئی جستجو نہیں کر رہی، ایسے میں تمام نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ حکومت کو ان اداروں کو ایک مخصوص وقت میں سیاست سے پاک کرنے کا حکم دے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہوا کیونکہ سپریم کورٹ نے اپنے آخری فیصلے میں یہ آپشن حکومت اور پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا کہ وہ کس طرح ان اداروں کو مضبوط کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’ہاں، نیب اور ایف آئی اے میں اعلی عہدوں پر بیٹھے ہوئے افسران ہوسکتا ہے کہ اشرافیہ پر ہاتھ نہ ڈال سکتے ہوں اور ان کے غلط کاموں پر نگاہ نہ رکھ سکتے ہوں اور جس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ان بااثر افراد کے سامنے جوابدہ ہوں اور اپنی ٹرانسفر، پوسٹنگ اور بھرتی کے معاملے میں احکامات جاری کرنے والے افراد کے احسان مند ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس عدالت کو دائرہ اختیار کی تعمیل کرنا چاہیے جو اس پر عائد نہیں ہوتا اور آئین کی دفعات کی توہین کا عمل کرے۔‘‘ حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’کسی بھی تسلیم شدہ طریقے سے انحراف افراتفری کا نسخہ ہوگا، حل بائی پاس کرنے میں نہیں بلکہ آئین کی دفعہ 190سے رجوع کر کے اداروں کو متحرک کرنے میں ہے۔ سیاسی جوش و خروش، سیاسی مہم جوئی، یا مقبول عام جذبات، حقیقی یا مصنوعی، کسی کو بھی یا کئی کو خلاف معمول راستے پر ڈال سکتے ہیں لیکن ہمیں آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے۔ آئیے ہم آئین اور قانون جیسے وہ ہیں، اس وقت تک ان کے دائرکار میں رہیں اور ان کے مطابق ہی عمل کریںجب تک کہ وہ تبدیل نہیں ہوجاتے یا انہیں ترمیم کے ذریعے بدلا نہیں جاتا۔ 
تازہ ترین