• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارادہ تو تھا کہ گزشتہ کالم بعنوان ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ کے تسلسل میں مزید تفصیل و تجزیہ کرتے ہوئے یہ بتائوں کہ پاکستان میں ایک دوسرے کی سخت مخالف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ شخصیات جنرل (ر) پرویز مشرف (آل پاکستان مسلم لیگ) شاہ محمود قریشی (پی ٹی آئی) بیرسٹر ملیکا بخاری (پی ٹی آئی) وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی (مسلم لیگ ن) سلمان صوفی (مسلم لیگ ن) اس ’’پاک۔ امریکہ تعلقات‘‘ کے ’’مونو لاگ‘‘ کے مذاکرہ میں مقررین تھے۔ لیکن ان شخصیات نے اپنی اپنی پارٹی کی ’’پروٹیکشن‘‘ کی بجائے صرف اور صرف پاکستانی موقف کی ترجمانی کی۔ نہ تو اپنے اپنے قائدین کے قصیدے پڑھے اور نہ ہی پارٹی ایجنڈا کو امریکہ میں ’’پروموٹ‘‘ کرکے اپنے قائدین سے شاباش لینے کی کوشش کی۔ اس صحت مند روایت اور گروہی سیاست کی بجائے قومی ایجنڈے کو ترجیح پر یہ شخصیات ستائش و شکریہ کی مستحق ہیں۔ یہی انداز ماہر معیشت شاہد جاوید برکی اور جنرل (ر) محمود درانی نے اختیار کیا۔ کاش یہ روایت آگے بھی چلے۔
ابھی ’’پاکستان ٹو ڈے‘‘ کے عنوان سے پاک۔ امریکہ تعلقات کے حوالے سے سیمینار پر گفتگو مکمل نہیں ہوئی تھی کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پاناماکیس کے فیصلے کے چند گھنٹوں بعد واشنگٹن پہنچ گئے۔ وہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ا سپرنگ میٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے تشریف لائے ہیں۔ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی عمارتوں میں غیرملکی وزراء ،وفود اور عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندوں سے ملاقاتوں میں 21اپریل سے ہی مصروف ہوگئے۔ ورلڈ بینک کے صدر، امریکی وزیر خزانہ ، افغان وزیر خزانہ سمیت ’’بیک ٹو بیک‘‘ ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا جوکہ پاکستان کی سیاسی اپوزیشن کے اس تاثر سے متضاد تھا کہ پاکستانی معیشت مشکلات اور تباہی کا شکار ہے۔ ان ملاقاتوں کی تعداد اور نوعیت سے تو یہ تاثر ملنا شروع ہوگیا کہ عالمی اداروں اور دیگر ملکوں کی نظر میں پاکستانی معیشت کی صورتحال بہتر ہے اور اتنی بری نہیں جتنا کہ اپوزیشن نے تاثر دے رکھا ہے۔ وزیر خزانہ کی یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ جس پاکستان کے بارے میں یہ اطلاعات بھی چند سال قبل گردش کررہی تھیں کہ پاکستان 2014ء میں ڈیفالٹ کر جائے گا اب اسی پاکستان کی معیشت کی سمت اور رفتار کے بارے رائے کیوں اور کیسے بدل گئی ہے؟ اب یہ کہا جارہا ہے کہ اس پاکستان کی معیشت میں یہ صلاحیت ہے کہ اگر اس کی سمت درست رہی تو آئندہ بارہ سال کے عرصہ میں یہ 20جی (G) ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اس امر کا جواب تو وہ پاکستانی حلقے ہی دے سکتے ہیں کہ آخر وہ پاکستانی معیشت کو کن حقائق اور معاشی وجوہات کے باعث تباہی کا شکار سمجھتے ہیں جبکہ عالمی سطح پر پاکستانی معیشت پر رائے مثبت پائی جاتی ہے۔ پشاور تا کابل روڈ تعمیر کے منصوبے کی تجویز اور اخراجات عالمی مالیاتی ادارہ کی جانب سے آئی ہے۔ پاکستانی میڈیا ہینڈلرز کی بھرپور کوشش رہی کہ وہ واشنگٹن میں موجود پاکستانی صحافیوں سمیت تمام میڈیا کو اپنے پریس ریلیز اور فراہم کردہ تصاویر کے ذریعے وزیر خزانہ اور پاکستانی وفد کی ملاقاتوں اور مصروفیات کا صرف سرکاری ورژن ہی فراہم کرسکیں لیکن کچھ سخت جاں صحافی موقع واردات یعنی موقع ملاقات پر موجود رہ کر اپنا تاثر رپورٹ کرنے اور غیرپاکستانی ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرکے پاکستانی سرکاری میڈیا ہینڈلرز کو ناراض بھی کرتے رہے۔ دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ وزیر خزانہ اور سفیر پاکستان کو ورلڈ بینک ہیڈ کوارٹرز میں موجود رہ کر خبریں تلاش کرنے والے پاکستانی صحافیوں پر کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ گفتگو اور اپنا موقف فراہم کرنے پر مائل تھے۔ ورلڈ بنک کی عمارت میں جس کمرے میں وزیر خزانہ اور ورلڈ بنک کے سربراہ کی قیادت میں دونوں طرف کے وفود کی ملاقات ہوئی اس کی شیشے کی دیواروں سے اندر کا منظر اور چہروں کے تاثرات اور پھر دو چار بلند قہقہوں کو سن کر ایک صحافی جو اپنا تاثر قائم کر سکتا ہے وہ سرکاری پریس ریلیز کے ذریعہ ممکن ہی نہیں تھا۔ میٹنگ کے ختم ہونے پر ورلڈ بنک کے سربراہ سے انکا موقف و تاثر لینے کی کوشش اور حرکات و سکنات اور رویے باڈی لینگویج بھی بہت کچھ واضح کر دیتے ہیں لیکن ہمارے پاکستانی میڈیا ہینڈلرز اس پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ صرف اپنے پریس ریلیز اور فراہم کردہ تصاویر کو ہی آزاد صحافت کا نسخہ کیمیا سمجھتے ہیں۔ بہرحال عالمی بنک کے صدر سے ملاقات مذاکرات کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد میرا تاثر تھا کہ یہ ملاقات بڑی خوشگوار رہی اور پھر وزیر خزانہ سے بھی ’’جیو /جنگ‘‘ کیلئے سوال و جواب نے صورتحال کو بالکل واضح اور میرے تاثر کو مضبوط و مثبت کر دیا۔
وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی میٹنگوں اور ملاقاتوں کا مرحلہ ختم ہو چکا لیکن ساتھ ہی وہ پاک۔ امریکہ تعلقات کے بارے میں ملاقاتوں کا اضافی مشن کرنے میں لگے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم کی ہدایات پر واشنگٹن میں اپنے قیام میں ایک روز کی مزید توسیع کر کے صدر ٹرمپ کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کچھ ملاقاتیں کر رہے ہیں جبکہ وہ امریکی وزیر خزانہ سے پہلے ہی ملاقات کر چکے ہیں۔ امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر میکما سٹر حال ہی میں پاکستان کا دورہ کر کے لوٹے ہیں، اب دوبارہ ملاقات کسی جاری ڈائیلاگ کے تسلسل کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ابھی اپنی جنوبی ایشیا پالیسی تیار کرنے میں مصروف ہے۔ لہٰذا اس مرحلے میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملاقاتیں متفقہ ایشوز پر مزید واضح موقف اور اختلافی ایشوز پر مزید ڈائیلاگ کا موقع فراہم کرسکتی ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ٹام شینن وزیر خزانہ سے ملاقات کے بعد جانے لگے تو میں نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھ لیا کہ ملاقات کیسی رہی؟ جواب پرجوش تھا اور سفیر اعزاز احمد اور وزیر خزانہ کیلئے تعریفی جملے تھے مگر میں نے پوچھا کہ پاک امریکہ تعلقات اور امریکی پالیسی کا ’’ریویو‘‘ یعنی جائزہ ابھی جاری ہے یا کچھ طے کر لیا گیا؟ امریکی نائب وزیر خارجہ نے پاک امریکہ تعلقات کو تاریخی اور کئی عشرے پرانے ہونے کا ذکر کیا تو میں نے تعلقات میں اتار چڑھائو کا ذکر کردیا مگر وہ تعلقات کی دوستانہ نوعیت پر مصر رہے۔ اس کالم کی اشاعت تک امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل میکما سٹر سے بھی اسحق ڈار کی ملاقات ہوچکی ہو گی۔ شنید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ پاکستان کے بارے میں مخالفانہ نہیں بلکہ محتاط ضرور ہے۔ایٹمی پاکستان سے مخالفانہ رویہ فی الوقت امریکہ برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ شمالی کوریا، ایران اور دیگر مسائل کی موجودگی میں اضافہ مناسب نہیں۔ افغانستان میں امریکہ فوج اور مشیروں کی موجودگی اور سکیورٹی کو بھی دھیان میں رکھنا ہے۔
واشنگٹن میں پاکستان کے نئے سفیر بھی 24اپریل کو صدر ٹرمپ کو اپنی اسناد سفارت پیش کرنے گئے تھے ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان سے اچھے تعلقات رکھنے کے خواہشمند ہیں گو کہ اسناد سفارت پیش کرنے کے موقع پر ہونے والی گفتگو رسمی جملوں پر مبنی ہوتی ہے لیکن صدر ٹرمپ عملاً بھی اب مزید مسائل پیدا کرنا فی الحال نہیں چاہتے۔ بلکہ بعض سنجیدہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ماضی کےمقابلے میں اب اور بھی زیادہ پاکستان کی ضرورت آن پڑی ہے۔ جبکہ چین سے تعلقات اور تعاون کے باعث پاکستان کا امریکہ پر انحصار کم ہو گیا ہے۔ امریکہ، عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے بعض حلقے پاکستانی معیشت کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اسحق ڈار واشنگٹن آنے سے قبل پاکستانی معیشت کے مقدمہ کی موثر تیاری کر کے آئے ہیں یو ایس پاکستان بزنس کونسل، پاکستان ایمبیسی فورم سمیت انہیں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اعدادو شمار کے ساتھ جوابات پیش کرتے پائے گئے یہ سب کچھ مثبت اور درست ہے مگر پاکستان میں پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد سیاسی اضطراب کی لہر کا علاج اسحٰق ڈار کے پاس نہیں۔



.
تازہ ترین