• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ میں طیبہ تشددکیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے بچوں کے تحفظ اور چا ئلڈ لیبر کے خلاف بل تیار کر لیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہدایت کی کہ حکومت مجوزہ بل کی نقول تمام فریقین کو فراہم کرے نیز بل پر سول سوسائٹی کی رائے بھی لے اور آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچوں سے جبری مشقت لینا یا کروانا معاشرتی ناسور ہے جس کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا۔ اسی بنا پر عدالت نے طیبہ کے واقعے کا از خود نوٹس لیا ہے۔ دوران سماعت ایک خاتون سماجی کارکن نے توجہ دلائی کہ والدین غربت کی وجہ سے بچوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اگر ملک بھر کے تمام بچوں کو لازمی مفت تعلیم دینے کی آئینی شق پر عمل کیا جائے تو یہ ناسور ختم ہو سکتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ معصوم طیبہ جس پر وحشیانہ تشدد کے مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے، ایک جج کے گھر میں ملازم تھی جس کا کام ہی مظلوموں کو انصاف دلانا ہے۔ اس کی بیوی نے مبینہ طورپر کم سن بچی پر ناقابل بیان تشدد کیا۔ ملک بھر میں نجانے ایسی کتنی ہی بچیاں اور بچے اس طرح کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کی خبر ہے نہ پروا۔ بااثر لوگ پیسے کے زور پر مفلس والدین سے یہ بچے حاصل کر کے انہیں غلام بنا لیتے ہیں۔ ایسے بچوں کے دلوں پرکیا گزرتی ہو گی جب وہ اپنے مالکوں کے اپنی ہی عمر کے بچوں کو عیش و آرام کی زندگی گزارتے اور تعلیم حاصل کرتے دیکھتے ہوں گے۔ حکومت نے بچوں کی جبری مشقت روکنے کے لئے قانون سازی کا فیصلہ کر کے بہت اچھا اقدام کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ سول سوسائٹی کی بھی رائے لے کر نئے قانون کو ہرلحاظ سے موثراور اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی کسی بچے کو غلام بنا کر اس سے جبری مشقت نہ لے سکے۔

.
تازہ ترین