• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجلی کے اداروں کی طرف سے تجارتی بنیادوں پر مختلف منصوبوں کیلئے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے 0.43روپے فی یونٹ صارفین سے وصول کئے جا رہے ہیں جبکہ 2013ء سے تین مختلف اقسام کے بھاری ٹیکس بھی بجلی کے بلوں میں شامل ہوئے ہیں۔ اب خیبرپختونخوا حکومت نے نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی ادائیگی کیلئے واپڈا سے لئے گئے 25ارب روپے کے قرض پر سود کی ادائیگی کا بوجھ بھی عوام پر منتقل اورمزید 1.8ارب روپے بجلی صارفین سے وصول کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اس مقصد کیلئے واپڈا نے وزارت پانی و بجلی کی سفارش سے نیپرا کو ایک درخواست دی تھی کہ 1.8ارب روپے کو 25ارب کے قرضے کی ادائیگی کی مد میں ٹیرف میں شامل کیا جائے مگر نیپرا نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا کہ نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی منظور ی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے دی تھی اوراس معاملے کی منظوری بھی سی سی آئی ہی دے سکتی ہے۔لہٰذا اب وزارت پانی و بجلی نے مشترکہ مفادات کونسل کو سمری بھجوا دی ہے جس میں ان سفارشات کی منظوری کیلئے کہا گیا ہے۔ سی سی آئی کا اجلاس آج وزیراعظم کی صدارت میں ہو رہا ہے ۔ایسے وقت میں جب بجلی صارفین سالانہ 15سے 20ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں ادا کر رہے ہیں، مزید ٹیکس کا بوجھ اُن کے کاندھوں پر لادنا کسی طور جائز نہیں ہے۔حکومت پہلے ہی بجلی کے ہر صارف سے ایک روپیہ 53پیسے فی یونٹ سرچارجز کی مد میں وصول کر رہی ہے جبکہ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق صارفین 7جولائی 2013ء سے 17فیصد سیلز ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں۔ جولائی 2013ء سے بجلی کا بل 15ہزارسے زائد ہونے پر مزید 5فیصد ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2013ء سے سیلز ٹیکس گوشوارہ نمبرنہ رکھنے والے تمام کمرشل صارفین سے ایک فیصد کی شرح سے مزید ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں حکومتی قرض اتارنے کے لئے عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کاکوئی جواز نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کو اس کی منظوری نہیں دینی چاہئے اور صوبائی حکومتوں کو اپنے قرض اتارنے کے لئے دیگر وسائل بروئے کار لانے چاہئیں۔

.
تازہ ترین