• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نام نہاد پاکستانی بشپ تحریر:واٹسن سلیم گِل…ایمسٹرڈیم

گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی مسیحی نام نہاد بشپ کی ویڈیو گردش کر رہی ہے جن کا تعلق کراچی سے ہے۔ بشپ دراصل مسیحی کمیونٹی کا مذہبی رہنما ہوتا ہے جو پادری سے بڑا ہوتا ہے ابتدائی کلیسیا، جن میں رومن کیتھولک چرچ، ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ،اینگلیکن چرچ اور دیگر چرچز میں رابطوں مضبوطی، چرچ کو متحد رکھنے اور نئے پاسٹرز کو مخصوص کرنے کیلئے سینئیر پاسٹرز کو منتخب کیا جانے لگا۔ یونانی زبان کے لفظ بشپ کا مطلب ہی سینیئر یا بزرگ ہیں۔ آسان لفظوں میں کلیسیا میں بہت سے چرچز اور پاسٹرز ہوں تو پھر ایک بشپ چنا جاتا ہے۔ پاکستان میں کیتھولک چرچ یا چرچ آف پاکستان چونکہ مسیحی آبادی کے لحاظ سے بڑی کلیسیا رکھتے ہیں اور ان کی کلیسیا نے بڑے بڑے شہروں میں اپنے بشپس مخصوص کئے ہوئے ہیں۔ یہ بشپ صاحبان کمیونٹی میں اپنی مذہبی اور سماجی خدمات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں ان ہی میں سے ایک معروف اور ہر دلعزیز نام بشپ جان جوزف کا ہے جن کو 1997 میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ وہ مسیحیوں کی ایک مضبوط آواز تھے۔ بعد میں اس قتل کو خود کشی کا رنگ دے دیا گیا ہمارے معاشرے میں کرپشن، دھوکے بازی اور جعلسازی دوسرے اداروں کی طرح مذہبی حلقوں میں بھی سرایت کر چکی ہو۔ مذہب کوئی بھی ہو وہ آپ کو سچائی اور دیانتداری کی تلقین کرتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں مولوی پادری یا پنڈت ہوں آپ آنکھیں بند کر کے کسی پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتے۔ کراچی کے یہ بشپ، اس طرح کے اور بشپ بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ایک شخص بغیر میٹرک کئے ڈاکٹر بننے کا دعویٰ کردے۔ میں نے تحقیق کی اور پتا چلا ہے کہ یہ خود ساختہ بشپ ہے جو کہ پاسٹر بننے کے بھی لائق نہیں ہے۔ اور نہ اسکا کوئی چرچ ہے نہ ہی کوئی رجسٹرڈ کلیسیا ہے۔ اس بشپ کی ایک ویڈیوسوشل میڈیا پر دیکھ کر پاکستان کے مسیحی شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں موصوف نام نہاد بشپ ایک مذہبی سیاسی پارٹی کے ایک جلسے میں شامل ہو کراپنی شمولیت کا اعلان کر رہے ہیں۔ مسیحی عوام کو ان کی شمولیت پر اعتراض نہیں ہے مگر ان کی تقریر پر شدید اعتراض ہے۔ ایک تو موصوف نے پارٹی سربراہ کی چمچہ گیری کی حد کردی اور اپنے جھوٹے ہی سہی مگر بشپ کے عہدے کا بھی پاس نہیں رکھا۔ تو دوسری طرف اپنے آپ کو مسیحی نمائندے کے طور پر پیش کرنے کے باوجود مسیحیت کو رد کر گئے ان کی تقریر سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ بشپ صاحب اسلام قبول کر چکے ہیں۔ اور وہ بس ابھی اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیں گے۔ میری پاکستان کی بہت سے مذہبی اور سیاسی شخصیات سے بات ہوئی۔ کسی کو بھی اس بات پر اعتراض نہیں ہے کہ موصوف نے اس مذہبی سیاسی جماعت کو ہی کیوں چنا، ہماری کمیونٹی کو اعتراض یہ بھی نہیں کہ موصوف اگر اسلام قبول کر لیتے ہیں کیونکہ یہ ہر شخص کا نجی مسئلہ ہے۔ ہماری کمیونٹی کو اعتراض ہے کہ اس شخص کو جو کسی قصبے یا شہر کا پادری بننے کا اہل نہیں ہے اور جھوٹا بشپ ہے اسے بشپ آف پاکستان (یعنی سارے پاکستان کا بشپ) کہہ کر متعارف کروایا گیا چونکہ وہاں میڈیا موجود تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کی ایک بڑی جماعت ہے بلکہ مذہبی جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت ہے اس میں موصوف کو پاکستان کا بشپ کہہ کر پکارنا جلسے میں موجود مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنے کے مترادف ہے ہماری ایک مسیحی خاتون رہنما آسیہ ناصر صاحبہ جمعیت علمائے پاکستان اسلام ف سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ وہ پارلیمنٹ کی ممبر بھی ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اس جماعت کے باوجود محترمہ آسیہ صاحبہ پاکستانی مسیحیوں کیلئے اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ اور حق کی بات کرتی ہیں۔ مگربشپ موصوف کو مسیحی کمیونٹی پاکستان کا بابا اوم سوامی قرار دے رہی ہے اور ان کو ڈھونگی بابا بشپ کہہ کر پکار رہی ہے۔ مسیحی کمیونٹی کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ ان کو اپنے لیڈرز کو منتخب کرنے کا اختیار ملنا چاہئے اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مسیحیوں کے (یا اقلیتوں) اس جائز مطالبے پر ساتھ دینا چاہئے۔ اور جب تک ایسا نہیں ہے تو کم از کم مسیحیوں کے نمائندوں کو منتخب کرتے وقت مسیحی کمیونٹی کی عمومی رائے جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس لئے کسی بھی مسیحی بہروپیئے کو جو بڑی سیاسی جماعتوں کی چمچہ گیری کرتا ہو اور اس کی مسیحی عوام میں کوئی پزیرائی نہ ہو ان کو مسیحیوں پر مسلط کرنا ظلم ہے کیونکہ اس طرح کے نمائندے اپنی کمیونٹی کے نصیب کا سودا کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اور جو نمائندے اس وقت بھی مسیحیوں کی نمائند گی کے طور پر اسمبلیوں میں موجود ہیں انہوں نے بھی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ انہیں اپنی کمیونٹی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے اور اگر یہ نمائندے کسی خدمت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں تو ان سے زیادہ خدمات ہمارے دیگر مسیحی نمائندے کرتے ہیں جو کہ اسمبلیوں کا حصہ نہیں ہیں میں بہت سے ایسے نام لکھ سکتا ہوں جن کی خدمات نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون پاکستان بھی جانی جاتی ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسمبلیوں میں کوئی جادو کا چکر ہے اقلیتوں کے نمائندے جب اسمبلیوں کا حصہ ہوتے ہیں تو ان کو اقلیتیں پاکستان میں برابرکے شہری کے طور پر نظر آتی ہیں مگر جیسے ہی یہ نمائندے اسمبلیوں سے باہر ہوتے ہیں تو اقلیتوں کیلئے برابری کے حقوق کیلئے آواز اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔



.
تازہ ترین