• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کی نریندر مودی سرکار کا ایک نیا پینترا مقبوضہ کشمیر کی ’’تسلیم شدہ‘‘ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے لئے آمادگی کے مضحکہ خیز اظہار کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس کا سیدھا سادا مفہوم یہ ہے کہ نئی دہلی سرکار ان کٹھ پتلی جماعتوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے جو بھارتی لوک سبھا کی سری نگر نشست کے ضمنی انتخاب میں جبر و تشدد کے تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لاکر بھی پانچ فیصد سے کم ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر لا سکیں۔ بھارتی حکومت کی مذکورہ آمادگی کا اظہار سپریم کورٹ میں چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی سرکردگی میں قائم تین رکنی پنچ کے روبرو اٹارنی جنرل موہن روہتگی نے مقبوضہ کشمیر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک دعوے کے جواب میں کیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ علیحدگی پسندوں سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ گویا مذاکرات کے نام پر بھارتی حکومت اپنی پروردہ جماعتوں سے نئی دہلی کے فیصلوں کی توثیق کرانا چاہتی ہے مگر جن مذاکرات میں کشمیری عوام کی نمائندہ تنظیمیں شامل نہ ہوں کیا ان کے فیصلوں کی کوئی وقعت ہوسکتی ہے؟ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق پاکستان تنازع کشمیر کا فریق ہے، اسے نظر انداز کر کے کئے جانے والے مذاکرات کو کیسے معتبر اور قانونی تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ حالیہ نام نہاد ضمنی الیکشن میں سرینگر نشست پر کامیابی حاصل کرنے والے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ صاف لفظوں میں کہہ چکے ہیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، نئی دہلی کے حکمراں پاکستان سے مذاکرات کریں۔ موجودہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے کئی بار دبی زبان میں کی گئی تنقید کے علاوہ بھارت اور دنیا بھر سے آنے والی آوازوں کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم کا ایک نیا پینترا اس بیان کی صورت میں سامنے آیا ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے ہاں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کو تحفظ دیں۔ یہ بیان خود اس طرز عمل کی عکاسی کر رہا ہے جو بھارت کے مختلف حصوں میں کشمیری طلبہ سے روا رکھا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور عالمی برادری کے رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد اور اسلام آباد سے بات چیت ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی کلید ہے۔

.
تازہ ترین