• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر مبارک علی کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے اپنے دامن پر نگاہ ڈالی تو اس میں پاکستان سے محبت اور تحریک پاکستان کے رہنمائوں سے عقیدت نظر آئی، جب ان کے کالم پر نگاہ ڈالی تو اس میں ان کی علمی ’’معصومیت‘‘ بلکہ لاعلمی، تعصب، قائداعظم کے لئے حقارت نظر آئی، جسے وہ اپنی تحقیق قرار دیتے ہیں۔ وہ دراصل پروپیگنڈہ ہے جو انہوں نے کانگریسی اور متعصب ہندو لکھاریوں سے مستعار لیا ہے۔ ان کا سارا سورس آف انفارمیشن ولی خان کی کتاب ہے جسے تاریخ جھوٹ کا پلندہ اور غفار خان کی محبت کا شاخسانہ قرار دے چکی ہے۔ پروفیسر وارث میر مرحوم کے ساتھ مکالمے میں ولی خان مان گئے تھے کہ ان کی انفارمیشن اور تحقیق ادھوری ہے لیکن ڈاکٹر مبارک علی نے چالیس برس بعد مردے کو پھر زندہ کرنے کی کوشش کی ہے اور نوجوان نسلوں کو تحریک پاکستان، قرارداد لاہور اور قائداعظم سے بدظن کر کے ان کے قومی اعتماد کو کمزور کرنے کی جسارت کی ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف اشتعال دلایا جاتا ہے، جب وہ قائداعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ اور قرارداد لاہور کو وائسرائے ہند کا ظفر اللہ خان سے لکھوا کر دیا گیا ڈرافٹ کہیں اور کوئی معتبر ثبوت دینے کی بجائے ٹامک ٹوئیاں ماریں تو لوگ انہیں کیا کہیں گے؟ جب وہ ٹیلی وژن کے پروگرام میں ڈاکٹر مسعود اور مجیب الرحمٰن شامی کے ساتھ بیٹھ کر لاکھوں ناظرین کے سامنے کہیں کہ اگر میں 46۔1945کے انتخابات کے وقت ووٹ دینے کا اہل ہوتا تو قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیتا، میرے اور سجاد میر کے ساتھ ٹی وی مذاکرے میں قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے میں ناکامی پرمسلمانان پاکستان کو مشورہ دیں کہ ’’ہمیں قرآن سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے‘‘ تو سوچیں کہ لوگ کیا تاثر لیں گے، جب حکومت ہند ان کو بڑا اعزاز دے اور وہ اپنی بیٹی کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ہندوستان کو منتخب کریں اور بیٹی کو Rasidance cardایڈوانی کی سفارش پر ملے تو ان کو پاکستانی ایجنٹ بہرحال نہیں سمجھا جائے گا۔ سوچنے کی بات ہے کہ بیس کروڑ پاکستانیوں میں سے بھارتی ایجنٹ کا اعزاز صرف چند ایک کو نصیب ہوا ہے، بھلا کیوں؟ اس میں کچھ قصور ان کا بھی ہو گا؟ تحریک پاکستان اور قائداعظم پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ان مصنفین میں عالمی سطح کے برطانوی، امریکی، فرانسیسی، سویڈش اور پاکستانی مورخین شامل ہیں۔ سب نے قائداعظم کی عظمت کردار، بصیرت اور مستقل مزاجی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ والپرٹ کہتا ہے کہ موجودہ تاریخ میں اتنا عظیم لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا۔ ان عالمی سطح کے غیر ملکی مورخین میں سے کسی کو ظفراللہ خان کے قرارداد پاکستان سے تعلق کا اشارہ تک نہیں ملا جو ولی خان کے ذریعے ڈاکٹر مبارک تک پہنچا ہے۔ ولی خان کی کتاب کے جواب میں بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں پنجاب یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر اکرام علی ملک بھی شامل ہیں اور شریف الدین پیرزادہ کی تحقیقی اور حوالہ جاتی کتاب بھی موجود ہے۔ ان مصنفین نے ولی خان کے دعوئوں کی تردید کی ہے لیکن ڈاکٹر مبارک علی نے ان میں سے ایک کتاب بھی نہیں پڑھی۔ انہوں نے قائداعظم کی تقاریر بھی نہیں پڑھیں جو تحقیق کے حوالے سے اولین سورس کا درجہ رکھتی ہیں، نہ انہوں نے مسلم لیگ کا ریکارڈ دیکھنے اور اس میں موجود قرارداد لاہور پر نظر ڈالنے کی زحمت کی ہے۔ اسے ان کی علمی معصومیت نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے گا۔ بس آ جا کے انہیں ڈاکٹر اشتیاق احمد ملا ہے جس کا شمار چند مخالفین پاکستان و قائداعظم میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق نے انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے ہوئے پرویز پروازی کی کتاب کا حوالہ تھما دیا ہے۔ پرویز صاحب احمدی جماعت کے رکن ہونے کے سبب قیام پاکستان کا کریڈٹ لینے کی کوشش میں ظفراللہ خان کو قرارداد پاکستان کا مصنف قرار دے چکے ہیں جبکہ خود ظفراللہ خان اخباری بیان میں اس سے انکار کر چکے ہیں۔ بحیثیت محقق سوچئے کہ پروازی کا دعویٰ اہم ہے یا خود سر ظفراللہ خان کا اپنا بیان۔ خدا کا خوف کیجئے جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر مبارک علی کی فروعی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے اصل الزام کی تاریخی مواد کی بنا پر تردید آج کا موضوع ہے۔ ڈاکٹر عائشہ کے نقطۂ نظر کا نہایت علمی اور تحقیقی جواب پروفیسر ڈاکٹر سکندر حیات اپنی دو کتابوں قائداعظم (آکسفورڈ پریس) اور ’’تحریک پاکستان کے اہم شعبے‘‘ (انگریزی) میں دے چکے ہیں اور میں بھی تاریخی حوالوں سے ان کے نقطۂ نظر کو غلط ثابت کر چکا ہوں۔ جہاں تک قرارداد پاکستان کے ڈرافٹ کا کریڈٹ ظفراللہ خان کو دینے کا تعلق ہے اس کی تردید خود ظفراللہ خان 25دسمبر 1981کو ایک نیوز ایجنسی کو دئیے گئے بیان میں کر چکے ہیں اور یہ بیان 25دسمبر 1981کو قیام پاکستان کے 34برس بعد تمام اخبارات میں چھپ چکا ہے۔ اس بیان میں ظفراللہ خان نے جھنجھلا کر کہا کہ نجانے ولی خان مجھے اس کارنامے کا کریڈٹ کیوں دے رہے ہیں جس سے میرا کوئی تعلق ہی نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’’میں نے وائسرائے لنلتھگو کے کہنے پر ایک اسکیم بنائی تھی جس میں متحدہ ہندوستان کے اندر فیڈریشن کا تصور دیا تھا۔ اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ اسکیم پروفیسر اکرام کی کتاب میں بطور ضمیمہ شامل ہے۔ مسلم لیگ ریکارڈ کے مطابق قرارداد لاہور ڈرافٹ کرنے کے لئے سر سکندر حیات ملک برکت علی اور نواب اسماعیل خان پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی کے تیار کردہ ڈرافٹ پر سبجیکٹ کمیٹی نے قائداعظم کی صدارت میں 23مارچ کو سات گھنٹے بحث کی۔ یہ ڈرافٹ مسلم لیگ آرکائیوز میں موجود ہے۔ اس میں علی محمد راشدی، محمد نعمان، ظہیر الدین فاروقی، مشتاق گورمانی، حسین امام، زیڈ ایچ لاری، رضوان اللہ، عبدالحمید خان، نواز آف چھتاری، عزیز احمد اور عاشق حسین بٹالوی وغیرہ نے ترامیم تجویز کیں۔ خود قائداعظم کے اپنے ہاتھ سے لکھی ترمیم بھی قرارداد پہ دیکھی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈرافٹ وائسراے کی طرف سے آیا تھا تو یہ ترامیم ہوا میں کی جا رہی ہیں۔ یہ ساری کارروائی مسلم لیگ ریکارڈ میں موجود ہے جو ڈاکٹر مبارک اور ان کے علمی مریدوں کے دعوئوں کو باطل ثابت کرتی ہے۔ ایک بات شواہد سے ثابت ہو چکی کہ قرارداد کا ظفراللہ خان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ بنیادی مسودہ کس نے تیار کیا جس میں ڈھیروں ترامیم کی گئیں اور مسلم لیگ کے بہترین دماغ سات گھنٹے اس پر غور کرتے رہے۔ ڈاکٹر مبارک کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسلم لیگ ریکارڈ کے مطابق 19اپریل1940 بروز جمعہ مسلم لیگ نے قومی سطح پر یوم قرارداد لاہور منایا۔ فروری 1941میں مسلم لیگ نے ہر سال 23مارچ کو قرارداد پاکستان منانے کا فیصلہ کیا جس کی تفصیل ریکارڈ کے علاوہ قائداعظم کی تقاریر میں بھی موجود ہے۔ مارچ 1941میں مسلم لیگ نے ہفتہ پاکستان لاہور میں منایا، قائداعظم نے اسلامیہ کالج کی گرائونڈ میں جھنڈا لہرایا اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تحت سیمینار کی صدارت کی جس میں واضح کیا کہ قرارداد پاکستان سودے بازی کے لئے نہیں بلکہ مطالبہ پاکستان ہمارے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے، چنانچہ 23مارچ ہر سال اہتمام سے منایا جاتا رہا اور جب پاکستان ری پبلک بنا تو اسے یوم پاکستان قرار دے دیا گیا
(بحوالہ شریف الدین پیرزادہ، Evolution of Pakistan، ہفتۂ پاکستان اور قائد کے بیان کے لئے ملاحظہ فرمائیں قائداعظم کی تقاریر، جلدIIمرتبہ خورشید یوسفی صفحہ 1339) پروفیسر اکرام کی کتاب میں قرارداد پاکستان کے ردعمل کے حوالے سے وائسرائے اور برطانوی سیکرٹری آف اسٹیٹ کی خط و کتابت کے ٹکڑے دئیے گئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ برطانوی حکومت کس قدر ناراض تھی اور قرارداد لاہور کو کس طرح تختہ مشق بنا رہی تھی، اگر قرارداد لنلگتھو نے بھجوائی تھی تو پھر اس قدر غم و غصہ چہ معنی۔ یہ خطوط ٹرانسفر آف پاور میں موجود ہیں۔ برطانوی حکومت نے 23مارچ کا جلسہ ملتوی کروانے کے لئے جو کوششیں کیں ان کے ثبوت بھی پیرزادہ کی کتاب میں موجود ہیں۔ آخری سوال یہ ہے کہ قرارداد کس نے ڈرافٹ کی۔ یہ ایک معتبر لیڈر کا پنجاب اسمبلی میں دیا گیا بیان ہے جس پر نہ شبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی مسلم لیگ نے تردید کی۔ 11مارچ 1941کو سر سکندر حیات پرئمیر پنجاب نے اسمبلی میں بیان دیا کہ ’’قرارداد لاہور میں نے ڈرافٹ کی تھی لیکن ورکنگ کمیٹی نے ترامیم کر کے اسے یکسر تبدیل کیا‘‘۔ سر سکندر نے متحدہ ہندوستان کے اندر فیڈریشن کی بنیاد پر قرارداد بنائی تھی لیکن ورکنگ کمیٹی نے تقسیم ہند اور مکمل آزادی کی قرارداد بنا دی۔ سر سکندر ایسی تجویز سے اتفاق کر کے وائسرائے اور برطانوی حکومت کو ناراض نہیں کر سکتے تھے اور یہی وجہ تھی ان کی لاتعلقی کی جس بارے ڈاکٹر مبارک بار بار پوچھتے ہیں۔ کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر میں نے فروعی اور غیر متعلق باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف یہ واضح کیا کہ قرارداد پاکستان مسلم لیگ کی اپنی قرارداد تھی۔ جب ظفراللہ خان اس سے انکاری ہے اور ڈرافٹ تیار کرنے والا اسمبلی کے فلور پر تسلیم کر رہا ہے تو پھر لنلتھگو سے اس کا رشتہ جوڑنا چہ معنی دارد۔



.
تازہ ترین