• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کیلئے ایک اور بدقسمت دن، وزیر داخلہ کا بہترین تبصرہ

اسلام آباد (انصار عباسی)یہ ناقابل یقین بھی ہے اور بدقسمتی بھی۔ وزیراعظم پاکستان نے انکوائری کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے لئے تین متعلقہ وزارتوں کو حکم جاری کیا لیکن سرعام وزیراعظم کےاقدام سے اختلاف کیا گیا اور اسے مسترد بھی کر دیا۔ آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ کے الفاظ ’’ ڈان لیک پر اعلامیہ نامکمل ہے اور انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ اعلامیہ مسترد کیا جاتا ہے‘‘ ، واضح طور پر منتظم اعلیٰ کے عہدے کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے فوج آئین سے بالاتر کوئی ادارہ ہے۔ پاکستان کے اس شش و پنج پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے بہترین تبصرہ آیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ٹوئٹس جمہوریت کے لئے مہلک ہیں اور بااصرار کہا ہے کہ ’’ادارے ٹوئٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔‘‘ فوج کسی بھی وجہ سے، درست یا غلط، وزیراعظم کے 29؍ اپریل 2017ء کے حکم نامے سے ناخوش ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹوئٹ کرنا چاہیے جس طرح ہفتے کو انہوں نے کیا۔ جی ایچ کیو کے لئے بہترین لائحہ عمل یہ ہوتا کہ وہ وزیراعظم کے دفتر سے رابطہ کرتے اور اپنے تحفظات پہنچاتے۔ ریٹنگ کے بھوکے ٹی وی چینل کے لئے ٹوئٹ نے وہ پورا نسخہ فراہم کر دیا ہے جو سیاسی افراتفری اور سول و فوج کے درمیان غلط فہمی کو بھڑکانے کا باعث بنے گا۔ پہلے سے تیار تجزیہ کاروں نے بھی یہ دیکھے بغیر کہ حکومت نے کیا جاری کیا ہے، اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ وزیراعظم کا آرڈر مکمل طور پر غلط پڑھا گیا اور غلط سمجھا گیا۔ آرڈر نہ تو ڈان لیکس پر انکوائری کمیٹی کے انکشافات کی عکاسی کرتا تھا اور نہ ہی عوام کے لئے تھا۔ وزیراعظم کے حکم میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ چیف ایگزیکٹو نے کمیٹی کی سفارشات منظور کر لی ہیں اور متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی ہے کہ ان سفارشات پر عمل درآمد کے لئے ضروری اقدامات کریں۔ یہ حکم سیکرٹری داخلہ کے لئے تھا اور اس کی نقل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، کابینہ اور انفارمیشن و براڈ کاسٹنگ کو بھی ’’انفارمیشن اور ضروری اقدام ‘‘کے لئے بھیجی گئی۔قواعد کے مطابق اور وزیراعظم کی منظوری اور ہدایت کے بعد متعلقہ وزارتیں عمل درآمد کے حکم کا اعلامیہ جاری کریں گی۔ مثال کے طور پر کابینہ ڈویژن وزیراعظم کے امور خارجہ کے خصوصی معاون سید طارق فاطمی کو ڈی نوٹیفائی کرے گا جبکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کرے گا۔ انفارمیشن کی وزارت اے پی این ایس کے ساتھ یہ معاملہ ڈان کے ایڈیٹر اور رپورٹر کے خلاف ضروری انضباطی کارروائی کے لئے معاملہ اٹھائے گی اور پرنٹ میڈیا کے لئے خاص طور پر اس وقت جب معاملہ پاکستان کی سیکورٹی سے متعلق ہو، ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے گا۔ یہ اطلاعات ہیں کہ فوج اس بات پریشان تھی کہ رپورٹ میں پرویز رشید کے خلاف اقدام کی توثیق نہیں کی گئی۔ اس کی جھلک وزیراعظم کے حکم میں اور چار وزارتوں، ڈویژنوں کے لئے ہدایات میں دکھائی نہیں دے سکتی تھی کیونکہ پرویز رشید کے معاملے میں کسی ایکشن کی ضرورت نہیں تھی۔ پی ایم کے آرڈر کی خوبی میں جائے بغیر یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وزیراعظم کے آرڈر پر اگر تحفظات حقیقی بھی تھے تو کیا اس طرح ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔بالکل ٹھیک جواب یہ ہے کہ نہیں۔ ٹوئٹ نے حکومت کو شرمندہ کیا ہے اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کو شرمندہ کرنے والی صورتحال پیدا کی ہے۔ ٹوئٹ سے پیدا ہونے والی صورت حال کو غیر ملکی میڈیا بالخصوص بھارتی میڈیا نے پوری طرح پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کو تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہ ملک میں سیاسی غیریقینی کا بھی باعث بنی ہے اور لوگوں کے ذہن میں سنگین شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ اس صورتحال سے سویلین بالادستی کو نقصان ہواہے، جس کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے اور یہ تاثر ملا ہے کہ جیسے فوج حکومت سے بالاتر ادارے کے طور پر عمل کر رہی ہے بلکہ ملک کے چیف ایگزیکٹو سے بھی بالا ہے۔ کسی رائے کے اختلاف کی صورت میں دونوں فریقوں کے لئے بہترین آپشن یہ ہے کہ ایسے معاملات پر بند دروازوں کے پیچھے تبادلہ خیال کیا جائے۔
تازہ ترین