• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
m.islam@janggroup.com.pk
کراچی (تجزیہ + محمد اسلام) میٹرک کے امتحانات کیا شروع ہوئے ہر طرف نقل کی بہار آئی ہوئی ہے۔ اگرچہ نقل کی روایت پرانی ہے لیکن پہلے کہا جاتا تھا کہ نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے مگر اب نقل کے لئے عقل کی ضرورت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں بے عقلے بھی بے فکری سے نقل کررہے ہیں۔ پس ثابت یہ ہوا کہ نقل کے لئے عقل سے کام لینے کا مشورہ پرانا ہوگیا۔ ہر جگہ نقل کے وافر مواقع موجود ہیں اور اساتذہ، طالب علم، تعلیمی عملہ، رشتہ دار، بعض پولیس اہلکار اور کچھ سیاسی کارکن نقل کی آبیاری کے لئے خوشی خوشی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ نیا دور ہے ہمارے معاشرتی رویئے بدل رہے ہیں نئے نئے مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ انور شعور نے بھی اس کی نشاندہی کی ہے ؎
شعور اس نئے دور کے لوگ ہیں
ہزاروں مسائل کے مارے ہوئے
ہزاروں مسائل میں سے کچھ مسائل تعلیمی میدان میں بھی ہیں ان میں ایک بڑا مسئلہ نقل مافیا سے تعلق رکھتا ہے۔ بھیا نقل ہی اتارنی ہے تو کسی بندر کی اتار لو یا پھر کسی اداکار کی اتارلو۔ مگر تعلیم جیسے مقدس عمل کو گندا نہ کرو۔ ایسا لگتا ہے کہ میٹرک کے امتحانات نہیں ہو رہے بلکہ نقل کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ نقل نے اصل کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ممکن ہے یہی چلن رہا تو آئندہ برسوں میں اصل کو تلاش کرنے کے لئے بین الاقوامی ٹینڈر جاری کرنا ہوں گے۔ پہلے نقل چھپ کر کی جاتی تھی اور اب کھلے عام کی جا رہی ہے۔ ارینج اور لو میرج کی کچھ طالب علموں کو نقل سے پیار ہے اور اپنا معاملہ خود ہی نمٹا دیتے ہیں جبکہ بعض طالب علم کو نقل ارینج کر کے دینی پڑتی ہے۔ یہ شائد بااثر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ نقل کی بنیاد پر بڑے عہدے بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن جن بیچارے غریب اور متوسط طبقے کے طالب علموں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ نقل کی بجائے عقل سے کام لو، وہ کہاں جائیں ؎
اے خدا تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں
بعض امتحانی مراکز کو یرغمال بنا کر کھلے عام نقل کرائی جاتی ہے۔ ماہرین تعلیم بے بس ہیں، حکومت محض دعوے کرتی ہے جس کی وجہ سے ایک نااہل نسل معاشرے پر مسلط ہونے والی ہے لہٰذا حکیم شرارتی نے تجویز پیش کی ہے کہ نقل مافیا کے خلاف آپریشن ردالفساد وقت کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو تباہی سے بچایا جائے۔ ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ دسویں جماعت کا فزکس کا پرچہ آئوٹ ہوگیا اور 3 گھنٹے تک وہ واٹس اپس پر گردش کرتا رہا۔ اگر بیرون ممالک سے کوئی آرڈر آتا تو قوی امید ہے کہ ہم یہ پرچہ امریکا، برطانیہ، بھارت اور دیگر ممالک کو بھی واٹس اپ کر کے قوم کا سرفخر سے بلند کر دیتے۔ کوئی آئوٹ کئے ہوتا ہے، یہ کرکٹ کے فاسٹ بالرز خوب جانتے ہیں لیکن امتحانث پرچہ آئوٹ کرنے والوں کو بھی اب آئوٹ کرنا ہوگا۔ ایک دل جلے نوجوان نے مطالبہ کیا ہے کہ عشق کا پرچہ بھی آئوٹ ہونا چاہئے تاکہ نئی نسل کا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ بہرحال نقل ہو یا پرچہ آئوٹ ہو یہ رجحانات کسی طرح بھی خوش آئند نہیں ہیں، اس کے خلاف سب کو مل کر آواز بلند کرنی چاہئے۔ بقول اقبال عظیم ؎
جو بات حق ہے کہے جائو مستقل اقبال
تمہاری بات کبھی تو کوئی سنے گا ضرور

.
تازہ ترین