• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے پناہ ثقافتی، مذہبی اور لسانی تنوع، غیرمعمولی انسانی وسائل، چار موسم، ایک طرف سمندر اور دوسری طرف چار دریائوں کی نعمت، پہاڑ بھی، میدان بھی، صحرابھی اور جنگلات بھی۔ اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار عنایتوں کے بعد پاکستان جیسا خوشحال ملک دنیا میں کوئی نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ یہ ملک جہنم بنتا جارہا ہے۔ پہلے لوگ صرف تلاش رزق میں یہاں سے بھاگتے تھے لیکن اب صور تحال یہ ہے کہ سیاستدان ہوں یا جرنیل، پہلی فرصت میں اپنے بچوں اور سرمائے کو باہر منتقل کرنے میں لگے ہیں۔ کسی کے نزدیک اصل مسئلہ کرپشن ہے، کسی کے نزدیک مذہب کا غلط استعمال ہے، کسی کے نزدیک انتہاپسندی ہے، کسی کے نزدیک توانائی کا بحران ہے، کسی کے نزدیک تعلیم کی کمی ہے۔ یقینا یہ سب اپنی اپنی جگہ اہم ترین مسائل ہیں لیکن گہرائی میں دیکھا جائے تو ان سب مسائل کی ماں یا ام المسائل سول ملٹری تعلقات کی خرابی یا پھر اس کا عدم توازن ہے ۔ جب تک اس مسئلے کا حل نہیںنکالا جاتا ، تب تک مذکورہ بالا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا بلکہ کچھ بھی کیا جائے اور کتنی بھی قربانیاں دی جائیں ، مذکورہ سب مسائل حل ہونے کی بجائے سنگین ہوتے جائیں گے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پاکستان روزاول سے نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہے اور دن بدن اس کی یہ حیثیت مزید مستحکم ہوتی جارہی ہے ۔ مشرقی سرحد پر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے واسطہ پڑا ہے ، اس لئے روز اول سے ہمیں بڑی فوج رکھنی پڑرہی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں مغربی سرحد پر بھی فوج رکھنی پڑی ۔ اب ایران کے ساتھ بارڈر پر بھی تنائو ہے ۔ اندرونی محاذ پر بھی پہلے فوج کو بلوچستان میں اور پھر سندھ میں امن وامان کے حوالے سے کردار دے دیاگیا۔ پھر وقت آیا کہ ہم نے فوج اور اس کے ذیلی ادارو ں کو خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی امن وامان کے حوالے سے بھی کردار دیا ۔ کشمیر اور گلگت بلتستان کے معاملات کو تو عملاً روز اول سے فوج دیکھ رہی ہے ۔اب توبیشتر سویلین معاملات بھی فوج کے حوالے کئے گئے ۔ یوں پاکستان کے نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہونے کی حیثیت وقت کے ساتھ ساتھ مزید تقویت پارہی ہے لیکن دوسری طرف ہم وقت کے ساتھ ساتھ مثالیت پسند ہوتے جارہے ہیں اور ہم ایک مثالی جمہوری نظام کا خواب دیکھنے لگے ہیں ۔ حالانکہ یہ نہیں دیکھتے کہ حکومت میں آنے کے بعدپہلے روز سے سیاسی حکمرانوں کی تمام تر صلاحیتیں اس بات پر صرف ہوتی ہیں کہ وہ کس طرح فوج اور اس کے اداروں کو قابو میں رکھیں جبکہ اپوزیشن کی پہلے دن سے یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو فوج یا اس کے اداروں کا منظور نظر بنائے یا پھرکس طرح اسی حکومت سے اس کو لڑوائے ۔ دھرنوں کے دوران ایمپائر سے التجائیں اس روش کی واضح مثال ہے ۔ اسی سوچ کے تحت میاں نوازشریف میمو گیٹ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف مدعی بن کر سپریم کورٹ گئے اور اسی وجہ سے آج پیپلز پارٹی ڈان لیکس کے معاملے میں حکومت کے خلاف کھڑی ہے ۔ تبھی تو میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ سول ملٹری تعلقات کار کو بہتر بنانے کے لئے نئے رولز آف گیم بننے چاہئیں ۔
اس حوالے سے اپنی صحافتی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ سول ملٹری تعلقات کسی بھی وجہ سے جب بھی اچھے رہے ، مشکل سے مشکل مسائل کا آسان حل نکلا ہے لیکن یہ کسی بھی وجہ سے خراب ہوں تو آسان سے آسان مسئلے کا حل بھی نہیں نکلتا ۔ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس سول ملٹری تنائو کی وجہ سے پاکستان کو خارجی اور داخلی محاذوں پر کتنے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کہاں کہاں پاکستان کو کس کس طرح کی سبکی اٹھانی پڑتی ہے ۔ یہ تعلقات دھرنوں کی وجہ سے خراب ہوں ، پاناما لیک کی وجہ سے یا پھر ڈان لیکس کی وجہ سے ، قیمت بہر حال پاکستان کو ادا کرنا پڑتی ہے ۔ میں اس حوالے سے ہزاروں مثالیں دے سکتا لیکن تازہ ترین مثال ملاحظہ کیجئے اور دیکھ لیجئے کہ سول ملٹری ہم آہنگی اور مناسب مشاورت نہ ہونے کی وجہ سے کس طرح افغانستان کے معاملے پر پاکستان کو سبکی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وزارت خارجہ کے حساس معاملات کو وزیراعظم فاطمی صاحب کے ذریعے نمٹا رہے تھے جبکہ فاطمی صاحب پر فوج اور اس کے ادارے اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ چنانچہ جس طرح امریکہ اور ہندوستان کے معاملے میں وزیراعظم صاحب نے اپنے ذاتی چینل کھول رکھے ہیں ، اسی طرح انہوں نے افغانستان کے ساتھ اپنا حقیقی چینل محمود خان اچکزئی صاحب کے ذریعے کھول رکھا ہے ۔وہ پاکستانی سفیر کے ذریعے نہیں بلکہ اچکزئی صاحب کے ذریعے خصوصی پیغامات افغان قیادت کو بھجواتے رہتے ہیں ۔ وزیراعظم ان کے ذریعے افغان قیادت کو بتاتے رہے کہ وہ فوجی قیادت کی تبدیلی کا انتظار کریں ۔ فوجی قیادت تبدیل ہوئی تو اس کے اداروں نے اپنے طریقے سے افغان حکومت کے ساتھ بند دروازے دوبارہ کھولنے کی کوششیں شروع کردیں جبکہ وزیراعظم نے اچکزئی صاحب کو متحرک کیا ۔ اچکزئی صاحب کو ایک بار خاموشی کے ساتھ افغانستان بھیجا گیا۔ اسی طرح انہوں نے لندن میں بھی بعض افغان لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں وزیراعظم کے پیغامات پہنچائے ۔ حامد کرزئی صاحب کے ساتھ چونکہ ان کے پرانے تعلقات ہیں ، اس لئے انہوں نے وزیراعظم کو تجویز کیا تھا کہ وہ حامد کرزئی کو پاکستان بلائیں ۔ چنانچہ وزیراعظم کا خط لے کر انہوں نے کئی ماہ پہلے کرزئی صاحب کے حوالے کیا تھا۔ دوسری طرف عسکری ادارے کوشش کررہے تھے کہ ڈاکٹر اشرف غنی یا پھر عبداللہ عبداللہ پاکستان کا دورہ کریں ۔ دوسری طرف چونکہ افغان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اصل معاملات فوج کے ہاتھ میں ہیں۔
اس لئے ان کی طرف سے وزیراعظم یا اچکزئی صاحب کے رابطوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی تھی اور اسی لئے افغان سفیر نے گزشتہ کچھ عرصہ میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے متعدد ملاقاتیں کیں ۔ افغان حکومت کی طرف سے تاثر دیا جارہا تھا کہ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ عسکری حکام کے دورہ افغانستان کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی یا پھر کم ازکم چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پاکستان کا دورہ کرلیں گے ۔ اسی تسلسل میں چیف آف جنرل اسٹاف جنرل بلال کابل گئے اور ڈی جی آئی ایس آئی کے دورہ کابل کی راہ ہموار ہوئی لیکن المیہ یہ تھا اس دوران نہ تو سول ملٹری مذاکرے کے اصل فورم یعنی کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس منعقد ہوا اور نہ کسی اور فورم پر مناسب سول ملٹری ہم آہنگی پیدا کی گئی ۔درمیان میں پانامالیکس اور ڈان لیکس کے معاملات سے تنائو اور پھر تلخی پیدا ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ اوپر کی سطح پر شخصیات کے میل ملاپ اور رسمی مشاورت کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔ ادھر جب سیاسی قیادت نے دیکھا کہ افغانستان کے معاملات بہتری کی طرف جارہے ہیں تو کریڈٹ لینے کے چکر میں اسپیکر قومی اسمبلی کی قیادت میں پارلیمانی وفد افغانستان روانہ ہوگیا۔ بظاہر اسپیکر قومی اسمبلی قیادت کررہے تھے لیکن عملاً ساری تفصیلات محمود خان اچکزئی صاحب نے طے کی تھیں ۔ چنانچہ تمام سیاسی جماعتوں یا باالفاظ دیگر پورے پاکستان کا یہ نمائندہ وفد افغانستان میں اپنی بھرپور بے عزتی کروا کر لوٹ آیا۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے چھ گھنٹے کی نشست میں ان سب کو کھری کھری سنائیں اور ایک موقع پر تو تلخی بھی ہوئی ۔ اشرف غنی صاحب سناتے رہے اور پاکستانی وفد ملزموں یا مجرموں کی طرح سنتا رہا ۔پھر لویہ جرگہ کے اسپیکر کی قیادت میں افغان پارلیمنٹیرین نے پاکستانی وفد کی کلاس لی ۔ پاکستان کے برعکس افغانستان میں ہر فرد اور ہر ادارے کے مقدمات اور مطالبات ایک رہے اور ہر افغانی رہنما انہیں اپنے الفاظ اور دلائل کے ساتھ پاکستانی وفد کے سامنے رکھتا رہا جبکہ دوسری طرف پاکستان میںہر ادارے کا اپنا اپنا مقدمہ ہے ۔پاکستانی وفد سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی سے دورہ پاکستان کی کمٹمنٹ تو نہیں لے سکا لیکن چونکہ حامد کرزئی صاحب کے ساتھ پہلے سے وزیراعظم کی طرف سے اچکزئی صاحب رابطے میں تھے ، اس لئے انہوں نے انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دی جسے انہو ں نے قبول کیا۔ اب ایک طرف ان دنوں ڈاکٹر اشرف غنی اور حامد کرزئی صاحب کے تعلقات نہایت خراب ہیں اور دوسری طرف افغان حکومت کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ پاکستانی حکومت صرف افغان حکومت سے ہی رابطہ رکھے ۔ چنانچہ حامد کرزئی کو دورے کی دعوت پر بھی ڈاکٹر اشرف غنی مزید برہم ہوگئے اور یہی وجہ ہے کہ ایک طرف انہوں نے پاکستانی وفد کے دورے پر کوئی بھی مثبت بیان جاری نہیں کیا اور دوسری طرف ابھی پاکستانی وفد واپس لوٹا ہی تھا کہ انہوں نے دورہ پاکستان کی دعوت مسترد کرنے پر مبنی بیان جاری کردیا ۔ چنانچہ نہ صرف گزشتہ کئی ماہ کی کوششیں رائیگاں چلی گئیں بلکہ دنیا کو یہ پیغام چلا گیا کہ پاکستان ہر سطح پر افغانستان کی منتیںکررہا ہے لیکن وہ بات کرنے کو تیار نہیں۔
اس ایک مثال سے اندازہ لگا لیجئے کہ اگر سول ملٹری تنائو کی وجہ سے اس ایک محاذپر پاکستان کو اتنی قیمت چکانی پڑرہی ہے تو باقی معاملات میں کیا صورت حال ہوگی۔ اس تناظر میں دیکھ لیجئے کہ پاکستان کا نمبرون مسئلہ سول ملٹری تعلقات ہیں کہ نہیں؟



.
تازہ ترین