• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشورہ بہت سادہ اور عمدہ تھا جو میں اپنے ہم مزاجوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ شعوری طور پر ’’پوزیشن ‘‘ تبدیل کرنے کی کوشش کریں جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ٹرن کوٹ سیاست دانوں کی طرح وفاداریاں تبدیل کریںکیونکہ یہ تو گھٹیا ترین کاموں میں سے ایک ہے ۔پوزیشن تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ شخصیات اور واقعات کو دیکھنے کا انداز تبدیل کریں ۔جن باتوں پر آپ کڑھنا شروع کر دیتے ہیں ان پر ہنسنے کی عادت ڈالیں مثلاً جب آپ کسی ٹی وی پروگرام میں ٹوپی اوڑھے، محرابی ماتھے والے باریش آدمی کو بغیر ٹماٹروں کے ’’ ٹمیٹو کیچ اپ ‘‘ کی فیکٹری چلاتے اور غلیظ ترین ماحول کا دفاع کرتے دیکھیں تو اس سے نفرت کرنے کی بجائے یہ سوچ کر ہنس دیں کہ یہ بہروپیا ہے تو گندے ترین جانور سے بھی گیا گزرا لیکن خود کو انسان سمجھتا ہے ۔ سڑک پر ٹریفک کے نام پر جاری سرکس پر خون جلانے سے کہیں بہتر ہے اسے جی بھر کے انجوائے کریں کہ آپ بزکشی کے اس میدان سے بخیروخوبی نکلتے جا رہے ہیں۔امتحانی پرچوں کے لیک ہونے کی خبر پر دانت پیسنے،مٹھیاںبھینچنےاور گالیاں بکنے کی بجائے وہ وقت تصور میں لائیں جب یہ سب نقلچو کالجوں یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر اپنی اصلی لیکن دراصل جعلی ڈگریوں کے ساتھ یہ ملک چلانے کیلئے میدان میں اتریں گے ۔یہاں تک کہ گردوں کے بیوپاری ڈاکٹر کو دیکھ کر بھی مسکرانا چاہئے کیونکہ ایک نہ ایک دن اس کی یہ حرکت بوم رینگ کرکے کسی نہ کسی شکل میں اس کے کسی قریبی رشتہ دار تک بھی ضرور پہنچے گی ۔ اس بدبخت افسر کے بختوں پر ریلیکس کریں جو اپنے چپراسی کو حکم دیتا ہے کہ اس کے آفس پہنچنے سے بہت پہلے ایئرکنڈیشنز چلا دیا جائے ۔جب کوئی سیاست دان جعلی افتتاح کرکے نقلی فیتہ کاٹے تو یقین رکھیں کہ ایک نہ ایک دن یہ خود کٹ جائے گا ۔یہ سب بالکل ایسا ہی ہے جیسے اک بہت بڑی کشتی میں سوار لوگ اپنی اپنی جگہ اس میں سوراخ کئے جائیں اس پر رونا نہیں ہنسنا چاہئے ۔سو میں بھی آج اپنا بلڈ پریشر نارمل رکھنے کیلئے بہت سے تضادات کو انجوائے کر رہا ہوں مثلاً ایک ہی اخبار کے فرنٹ پیج پر اپرہاف میں یہ خبر نمایاں ہے کہ ’’پولیس میں کرپشن بڑھ گئی اور اس ’’صحت مند مقابلہ‘‘ میں سندھ پہلے اور پنجاب دوسرے نمبر پر ہے ۔لاہور سمیت کئی شہروں کےپولیس افسران قبضہ مافیا کے ساتھ مل کر پراپرٹی بزنس کر رہے ہیں ۔خوشاب سے چوری کی زیادہ گاڑیاں لائی جاتی ہیں، افسران باقاعدہ حصہ وصول کرتے ہیں ‘‘ حساس ادارہ کی پولیس سے متعلق رپورٹ میں یہ د لچسپ انکشاف بھی موجود ہے کہ اک سندھی پولیس افسر کے 36پٹرول پمپس ہیں ۔لوئر ہاف پر اسی موضوع پر اک خبر کی صرف ایک دو جھلکیاں۔’’پولیس کے 80فیصد جدید آلات وزیر اعظم، وزیراعلیٰ پنجاب کی رہائش گاہوں اور دفاتر پر نصف ‘‘’’150سے زائد ایلیٹ اور سکیورٹی ڈویژن کے 450اہلکار بھی تعینات، آلات کروڑوں روپے میں خریدے گئے ‘‘اس خبر کو انجوائے کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صرف اتنا سوچ لیں کہ ابھی یہ ’’خادم اعلیٰ‘‘ ہیں .......صرف وزیراعلیٰ ہوتے تو کیا ہوتا ؟یہ پورے شہر کے ٹریفک وارڈنز بھی جاتی امرے میں جمع کر لیتے ۔پنجاب بھر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کا فیصلہ بھی ہو چکا ۔اس خوشخبری کو انجوائے بلکہ سیلی بریٹ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ جاتی امرا جاکر شاہی تجاوزات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور دیکھتے وقت شہباز شریف کا یہ بیان بھی دھیان میں رکھیں کہ .......’’انصاف ہو تو معاشرے ترقی کرتے ہیں‘‘عزت مآب چیف جسٹس پوچھتے ہیں کہ ....’’وہ قانون بتائیں جس کے تحت بیرون ملک اثاثے بتانے ضروری ہوں ‘‘ یہاں تو قانون ہونے کے باوجود اندرون ملک اثاثے بتانے کا رواج نہیں، بیرون ملک کون بائولا بتائے گا ۔بیرون ملک سے مجھے اپنا پڑوسی بھارت یاد آیا جہاں انتہاءپسندی اپنےعروج پر ہے بلکہ سائونڈ بیریئر بھی توڑ چکی تو پاکستان کو اس پر قطعاً تشویش نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس پر خوش ہونا چاہئے ۔اللہ کرے بھارت اس میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے کیونکہ بھارت پاکستان دشمنی کے باعث ایسے سانپ اور عفریت پال رہا ہے جو آخرکار اسے ہی ڈسیں اور کھائیں گے ۔انتہاپسندی اندھی ہوتی ہے اور اندھے کو اپنے پرائے کی پہچان نہیں ہوتی۔ ہم خود بھی ذرا مختلف انداز میں اس حماقت کا خمیازہ بھگت چکے بلکہ بھگت رہے ہیں ۔ بھارت تو یوں بھی چوں چوں کا مربہ، بھانت بھانت کی بولیاں ، سینکڑوں زبانیں اور کلچرز، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا ..... ان کیلئے تو انتہا پسندی کھنڈے چھرے سے خود کشی کے مترادف ہے۔ادھر میاں اینڈ کمپنی المعروف ن لیگ بھی مودی کی طرح جوش انتقام میں اندھے پن تک جا پہنچی ہے کہ تازہ ترین اطلاع یہ کہ حکمران جماعت نے عدالت عظمیٰ میں 3 تازہ شواہد جمع کروانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں ’’ سیاسی حریف ‘‘ کی بیٹی سے متعلق ثبوت بھی عدالت میں پیش کئے جائیں گے تاکہ جس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اسے کسی نہ کسی طرح نااہل قرار دلوایا جا سکے تو شاباش کیپ اٹ اپ کہ مودی کی طرح ان کوتاہ اندیشوں کو بھی اندازہ نہیں کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں ۔اس پر تب لکھوں گا جب تیر ان کی کمان سے نکل چکا ہو گا۔



.
تازہ ترین