• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ نقشے کیسے بنتے ہیں۔ ایک مدت تک میں یہی سمجھتا رہا کہ کوئی شخص کاپی پنسل لے کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھ جاتا ہوگا اور پھر زمین کے اُس مخصوص حصے کا فضائی معائنہ کرکے نقشہ بنا ڈالتا ہوگا۔ پھر خیال آیا کہ نقشے تو اُس وقت بھی بنتے تھے جب ہیلی کاپٹر ایجاد نہیں ہوا تھا، سوچا کہ ممکن ہے پرانے وقتو ں میں لوگ پیدل چل کے اندازے سے نقشے بنا لیتے ہوں مگر یہ بات بھی دل کو نہیں لگی، بہت ذہن لڑایا مگر کچھ پلے نہ پڑا، اب تک میرے لئے یہ معمہ ہے۔ اسی طرح سمندر کا سفر کرتے ہوئے بھی یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ کھلے سمندر میں جب تاحد نگاہ پانی ہی پانی ہوتا ہے اور کئی کئی ہفتے کنارہ نظر نہیں آتا تو جہاز کی سمت کیسے متعین کی جاتی ہے، اب تو سائنسی آلات نے کام آسان کر دیا ہے اور کپتان کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا مگر پرانے وقتوں کے ملاح یہ کام کیسے کیا کرتے تھے، کھلے سمندر میں جہاز کو کہاں لے جانا ہے، زمین کہاں ملے گی، انہیں کیسے پتا چلتا تھا؟ صحرا کا معاملہ بھی یہی ہے، لق و دق صحرا میں میلوں قافلے چلا کرتے تھے، کہاں پڑاؤ کرنا ہے، پانی کہاں ملے گا، نخلستان کہاں ہو گا، منزل کب ملے گے، میر کارواں کو سب معلوم ہوتا تھا اور یہ علم صدیوں یونہی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا تاوقتیکہ سائنس کے جادوئی آلات نے اس کی جگہ لے لی۔ پھر گاؤں میں کھوجی ہوا کرتے تھے جو چور کا کھرا ناپ کے اس کے گھر کا پتا دیتے تھے، طبیب ہوا کرتے تھے جو نبض دیکھ کر مرض بتا دیا کرتے تھے، معلم ہوا کرتے تھے جن کے سینوں میں علم مدفون ہوتا تھا... یہ سب لوگ کہاں گئے؟ کیا یہ علوم ناپید ہو چکے؟ کیا دانائی کے یہ پیکر بس ماضی میں ہی ہوا کرتے تھے یا آج کی دنیا میں بھی مل جاتے ہیں؟
پرانے وقتوں میں لوگ اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہوا کرتے تھے، کوئی شخص اگر صحرا کا راستہ بتاتا تھا تو وہ اُس کا کام کا ماہر سمجھا جاتا تھا، وہ علم اُس کے باپ دادا سے ہوتا ہوا اُس تک پہنچتا تھا اور وہ اُس میں مزید مہارت پیدا کرنے کے بعد اُس علم کو اگلی نسل میں منتقل کر دیتا تھا۔ اسی طرح جہاز راں، طبیب، کھوجی، ریاضی دان... ان سب لوگوں میں اپنے اپنے فن میں یکتائی حاصل کرنے کی دھن ہوا کرتی تھی، یہ لوگ perfectionistتھے، حیران کر دینے والے علوم کے حافظ۔ اشفاق احمد کا افسانہ گڈریا یاد آیا، ایک نابینا ریاضی دان کا قصہ اُس میں درج ہے جن کے شاگرد اُن کی پشت پر انگلیوں سے نشان بنا کر جیومیٹری کا مسئلہ بتاتے اور وہ اُس کا حل:’’بتاؤ ہندسہ کا کون سا مسئلہ تمہاری سمجھ میں نہیں آیا؟ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا تو انہوں نے اسی طرح کندھوں کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے اور آہستہ آہستہ کُرتہ یوں اوپر کھینچ لیا کہ ان کی کمر برہنہ ہو گئی۔ پھر فرمایا، بناؤ اپنی انگلی سے میری کمر پر متساوی الساقین۔ مجھ پر سکتہ کا عالم طاری تھا، نہ آگے بڑھنے کی ہمت تھی نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت۔ ایک لمحہ کے بعد بولے، میاں جلدی کرو، نابینا ہوں، کاغذ قلم کچھ نہیں سمجھتا۔ میں ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا اور ان کی چوڑی چکلی کمر پر کانپتے ہوئے انگلی متساوی الساقین بنانے لگا۔ جب وہ غیر مرئی شکل بن چکی تو بولے، اب نقطہ س سے خط ب ج پر عمود گراؤ۔ ایک تو میں گھبرایا ہوا تھا، دوسرے وہاں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ یونہی اٹکل سے میں نے ایک مقام پر انگلی رکھ کر عمود گرانا چاہا تو تیزی سے بولے، ہے ہے، کیا کرتے ہو۔ یہ نقطہ س ہے کیا؟ پھر خود ہی بولے، آہستہ آہستہ عادی ہو جاؤ گے۔ بائیں کندھے سے کوئی چھ انگل نیچے نقطہ س ہے۔ وہاں سے خط کھینچو‘‘۔ یہ پرانے وقتوں کے عالموں کی ایک جھلک ہے جو اشفاق صاحب نے بیان کی ہے۔ علم کی ایسی خالص شکل اور ایسا عمدہ بیان، کیا کہنے۔
سوال وہیں کا وہیں۔ یہ سب لوگ اب کیوں نظر نہیں آتے؟ دنائی کہاں گئی؟ کیا اب علم و فن کے ایسے عالم پیدا نہیں ہوتے؟ بالکل ہوتے ہیں، ذہین اور دانا لوگ اب بھی پیدا ہوتے ہیں اور اپنی بے پناہ محنت سے مختلف شعبوں میں عروج پر بھی پہنچتے ہیں، مگر ہمیں اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ اب ان لوگوں کو گوگل، ایپل، فیس بک اور مائیکرو سافٹ جیسے ادارے اچک لیتے ہیں، سیلیکون ویلی میں یہی لوگ پائے جاتے ہیں، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اب ان کا مسکن ہیں۔ ہمارے پاس چونکہ چھان بورا بچتا ہے اس لئے ہمیں یوں لگتا ہے جیسے سمندر میں راستہ بتانے والے ملاح اب نہیں رہے، صحرا میں راستہ ڈھونڈنے والے اب نہیں رہے اور آسمان پر ستاروں کی مدد سے سفر کرنے والے اب نہیں رہے۔ دراصل ہمارے ہاں اب کسی شعبے کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں، چند ٹوٹکے اگر آپ سیکھ لیں تو اندھو ں میں کانا راجا بن سکتے ہیں۔ علم میں یکتائی حاصل کرنے کی کیا ضرورت جب قوم کو بابوں کے تعویذ گنڈوں کے سوا کچھ چاہئے ہی نہیں۔ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کی پڑھائی کا واحد مقصد جب نوکری کا حصول ہی ٹھہرا اور اس مقصد کے لئے رٹے رٹائے مضامین میں گریڈ لے کر محض ڈگری حاصل کرنا ہو جس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہ ہو تو پھر کوئی بو علی سینا یا فارابی یہاں پیدا نہیں ہوگا، کوئی ایسا عالم یہاں پیدا نہیں ہوگا جو اپنے شعبے میں یکتا اور perfectionistہو۔ ہاں، کچھ لوگ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو نوکری یا فکر معاش سے ماورا ہو کے سوچتے ہیں، ان میں ٹیلنٹ بھی ہوتا ہے اور انتھک محنت سے وہ اس درجے میں بھی پہنچ جاتے ہیں جسے دنیا اعلیٰ میعار گردانتی ہے مگر ایسے لوگ ملک کے ناموافق حالات کی وجہ سے باہر چلے جاتے ہیں، بہت تھوڑی تعداد ملک میں رہتی ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے اسی لئے ان کی موجودگی کا ہمیں احساس نہیں ہو پاتا۔ ان کی موجودگی کا علم نہ ہونے کی ایک اور وجہ نالائقوں کا ہجوم بھی ہے جسے محنت کی عادت ہے اور نا ان میں ٹیلنٹ ہے، یہ لوگ شارٹ کٹ سے زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے ہم نے ملک میں ’’بابے‘‘ رکھے ہوئے ہیں، ہمارے چونکہ ناختم ہونے والے مسائل ہیں، اس لئے ہم میں سے ہرکسی کو اپنے مسائل کے حل کے لئے کوئی نہ کوئی بابا چاہئے جو محض دم کرکے، تعویذ گنڈوں کے ذریعے چٹکی بجا کے ہمارے تمام دکھوں کا مداوا کر دے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ ’’بابے‘‘ مائیکرو سافٹ، گوگل یا CERNمیں کام کرتے ہیں جہاں وہ اپنے علم و ہنر کے جھنڈے گاڑ کے روزانہ ہم جیسوں کے سامنے ایک نیا جہان آباد کرتے ہیں۔ دنیا میں علم و فضل اور دانائی کے دریا اب بھی بہتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ دریا خشک ہو چکے ہیں۔ اب ہم فقط جملے بازی سے کام چلاتے ہیں۔



.
تازہ ترین