• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن دنوں ہمارے ہاں ڈان لیکس کے چرچے ہو رہے تھے ،دنیا کے دوسرے کونے میں جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی کے سربراہ کو ان کی نوکری سے فارغ کر دیا۔ ان کا قصور یہ ٹھہرا کہ انہوں نے امریکہ میں ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات میںروس کی مداخلت کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے بارے میں کچھ زیادہ پوچھ گچھ شروع کر دی تھی۔ امریکہ کے صدر نے اپنے ملک کی ایک طاقتور ایجنسی کے سربراہ کو نوکری سے فارغ کرنے کیلئے جو طریقہ اختیار کیا وہ بھی کافی بھونڈا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ذاتی گارڈ کے ہاتھ ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو ایک خط بھیجا جس میں انہیں اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ وہ اب ایف بی آئی کے سربراہ نہیں رہے۔ یہ وہی جیمز کومی ہیں جنہوں نے پچھلے سال جولائی میں صدر ٹرمپ کی مخالف امیدوار ہیلری کلنٹن کے خلاف اس بنا پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا کہ ہیلری اور ان کے اسٹاف نے خفیہ معلومات کو ذاتی ای میل کے ذریعے بھیج کر قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔
ان تحقیقات میں اگرچہ ہیلری کلنٹن اور ان کی ٹیم کی جانب سے لاپروائی برتنے کی نشاندہی ہوئی مگر جیمز کومی نے یہ کہہ کر تحقیقات ختم کر دیں کہ انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جنہیں بنیاد بنا کر کوئی بھی پراسیکیوٹر ،ہیلری کے خلاف کرمنل چارجز کے تحت کارروائی کرسکے۔ ایف بی آئی کے سربراہ کے اس بیان کو اس وقت صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ٹرمپ نے اس فیصلے کو اس بات کا ثبوت قرار دیا کہ امریکہ کا موجودہ سسٹم rigged ہے۔ لیکن جولائی میں ہیلری کے خلاف تحقیقات کو داخل دفتر کرنے والے جیمز کومی نے اٹھائیس اکتوبر کو الیکشن سے چند روز قبل کانگریس کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ وہ ہیلری کلنٹن کے خلاف کیس کو دوبارہ کھول رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی صدارتی مہم کیلئے یہ اطلاع کسی زلزلے سے کم نہ تھی ۔انتخابات سے محض چنددن قبل امیدوار کے بارے میںایف بی آئی کے سربراہ کی جانب سے تحقیقات کو دوبارہ کھولنے کے اعلان نے ان کے حوصلوں کو پست کر دیا۔ ایف بی آئی کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھاکہ وہ ایف بی آئی کی جانب سے انصاف کی فراہمی کیلئے کی جانے والی کوشش کی دل سے قدر کرتے ہیں۔
پھر انتخابات سے صرف دو روز قبل جیمز کومی نے کانگریس کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ دوسری بار ہونے والی تحقیقات کے بعد بھی وہ اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کے پاس اس طرح کا کوئی مواد نہیں جسے استعمال کر کے کوئی پراسیکیوٹر مجرمانہ کارروائی کا آغاز کر سکے ۔جیمزکومی کے اس دوسرے خط کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ وہ جانتے ہیں کہ ہیلری کلنٹن مجرم ہیں لیکن امریکہ کا نظام انہیں بچانے کیلئے آگے آگیا ہے اور یہ نظام ایسے ترتیب دیا گیا ہے کہ طاقتور آدمی قانون کی گرفت سے بچ نکلتا ہے۔دو روز بعد ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کر کے امریکی عوام نے بھی شاید اسی رائے سے متفق ہونے کا ثبوت دیا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ نے نہ صرف جیمز کومی کو ایف بی آئی کے صدر کے طور پر برقرار رکھا بلکہ وائٹ ہائوس میں ہونے والے ایک عشائیہ کے موقع پر انہوں نے ایف بی آئی کے صدرسے بغلگیر ہوتے ہوئے ان کے مشہور ہونے کا ذکر بھی کیا۔ اس سب کے دوران صدارتی انتخابات ہارنے والی ہیلری کلنٹن نے اپنے حامیوں سے کھل کر اس بات کا اظہا ر کیا کہ اگر جیمز کومی الیکشن سے چند روز قبل دوبارہ تحقیقات کا آغاز نہ کرتے تو وہ امریکہ کی صدارت کے منصب پر فائز ہوتیں۔ لیکن جیمز کومی نے ہمیشہ اس تاثر کو غلط قرار دیا، کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ تحقیقات کے سیاسی اثرات کے بارے میں سوچے بغیر اپنے کام کو آگے بڑھاتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہی کریں گے۔ایف بی آئی کے سربراہ نے مارچ میں ایک خط کے ذریعے کانگریس کو آگاہ کیا کہ ایف بی آئی پچھلے سال جولائی سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روس کے مابین روابط کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔اگرچہ یہ تحقیقات ہیلری کلنٹن کے خلاف کی جانے والی تفتیش کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھیں مگر اس حوالے سے جیمز کومی نے کبھی اعتراف نہیں کیا۔ ان تحقیقات کے حوالے سے کئے جانے والے سوالات کے بارے میں کومی نے ہمیشہ یہی موقف اختیار کیا کہ ایسی کوئی انکوائری نہیں کی جا رہی۔ پھر نہ جانے کیوں ایف بی آئی کے سربراہ نے یک دم اس انکوائری کی موجودگی سے کانگریس کو آگاہ کر دیا، شایدا س کی وجہ یہ تھی کہ اس انکوائری میں بہت سے ایسے شواہد ملے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف روس کی جانب سے امریکی انتخابات میں مداخلت کی گئی بلکہ ایسا کرنے کا براہ راست فائدہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہوا۔کانگریس کو اس بارے میں آگاہ کرنے کے بعد جیمز کومی شاید اپنی تحقیقات کے دائرہ کار کو مزید بڑھانا چاہتے تھے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے جیمز کومی کو نوکری سے برخاست کرنے کے بعد کہا کہ ایف بی آئی کو ایک شوباز شخص کی ضرورت نہیں جو میڈیا کی ستائش کیلئے اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے پچھلے سال جولائی میں ہیلری کلنٹن کے خلاف تحقیقات کو بند کر کے ایسا قدم اٹھایاجس کی وجہ سے نہ صرف ایف بی آئی کے ادارے میں کام کرنے والے افراد کا مورال گر گیابلکہ عوام کی نظر میں بھی ایف بی آئی کی قدر کم ہو گئی۔ ایسے میں جیمز کومی کیلئے مزید عرصہ کیلئے ایف بی آئی کا سربراہ رہنا ممکن نہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس اقدام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاست چاہے پاکستان میں ہو یا امریکہ میں بہت بے رحم ہوتی ہے۔ جن سے کل گلے ملا جا رہا ہو، ضرورت پڑنے پر انہیں دھکا مارنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ صدر ٹرمپ کی صدارت کی ابتدا کچھ زیادہ ہموار معلوم نہیں ہوتی۔ جہاں امریکہ میں انتخابات میں روسی مداخلت کے حوالے سے بحث جاری ہے وہیں صدر ٹرمپ کے کاروباری مفادات کے حوالے سے بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ سوال امریکہ میں بھی زیر بحث ہے کہ کیا سربراہ مملکت کیلئے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے کاروباری مفادات کو ریاستی امور سے الگ رکھ سکے؟صدر ٹرمپ اور پاکستانی سیاست کے حوالے سے ایک اور دلچسپ مماثلت صدر ٹرمپ کا اہم عہدوں پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو تعینات کرنا بھی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ انتخابات میں روسی مداخلت اور کاروباری مفادات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کو مواخذہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا نہیں مگر امریکہ میں اس حوالے سے چہ میگوئیوں کا آغاز بہت پہلے سے ہی ہو چکا ہے۔

.
تازہ ترین