• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈان لیکس اسکینڈل، جو شدت سے مطلوب گورنمنٹ۔ملٹری مفاہمت میں تبدیل ہو کر اختتام پذیر ہے، یہ پاکستان میں حکمرانی، سیاسی صحافتی اور عسکری تاریخ کا اتنا بڑا ریفرنس ہے کہ ہر چار شعبوں کے مستقبل میں بطور حوالہ زیر بحث آتا رہے گا اس کے فوری اور ابتدائی اثرات کے برعکس اس ہمہ پہلو سیاسی صحافتی کہانی کے دور رس نتائج کو کوئی حکومت، کوئی کمیشن روک سکے گا نہ ان پر کسی طور بھی مٹی ڈالی جا سکے گی۔ سردست ریاست میں ہر طرف کے ہیجان کو مطلوب سطح پر مینج کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ ’’معیاری اور نتیجہ خیز فیصلہ سازی بمطابق صورتحال‘‘ اختیار کر لیا جائے کچھ قربان اور نظر انداز بھی کرنا پڑتا ہے۔ (Focus Demands Sacrifice)جو ہم نے ڈان لیکس کے حوالے سے کر دیا۔ کر تو دیا، یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ معاملات بمطابق صورتحال ہی طے پائے (Setteled) لیکن موضوع زیر بحث کی بڑی پیچیدگی یہ ضرور ہے کہ جو کچھ قربان کیا گیا اس کے نتائج پر بھی ہماری نظر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ موضوع پر بات کرنے والے فکر مند، دلچسپی لینے والے، سب کوئی سیاسی دھڑے بندی اور پروپیگنڈے کا مزاج ہی رکھتے ہیں نہ ذہن۔ بلاشبہ داخلی سیاست کہ سیاست بازوں کے لئے یہ اسکینڈل ہاٹ کیک بھی تھا اور سر پر لٹکی تلوار بھی، لیکن مبتلائے تشویش اور ملکی سلامتی کی نئی پیچیدگیوں پر فکر مند بھی کوئی کم نہیں ہیں۔ اس پر سمجھانا بھی محال ہے کہ کیسے ڈان لیکس پر لکھتے بولتے آراء اور تجزیے کی بڑی کپیسٹی والے رائے سازوں کے لئے ابلاغ عام بھی عام بھی محال ہو گیا۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ ڈان لیکس کی بحث میں الجھے ہوئے ہم پاکستانی ہی اس کے اسٹیک ہولڈرز نہیں تھے اور ہیں، ہوش ہونی چاہئے کہ ملکی سرحدوں سے باہر بھی ہیں اور ہمارے جتنے اور شاید اس سے بھی بڑے اسٹیک ہولڈر وہ ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں۔ اگر کسی کو یہ تلخ حقیقت سمجھ نہیں آئی تو یہ بدستور باعث تشویش ہے خواہ یہ کوئی ہو، کہیں ہو اور خود کو کتنا ہی معتبر اور محفوظ سمجھتا ہو، اور معاملات طے ہونے پر جتنا بھی خوش ہو۔ تشویش کا پہلو یہ ہے کہ کوئی سرگرم اسٹیک ہولڈر اب بھی اپنی نیم حکیمانہ حیثیت اور خطرناک کردار کی بے نقابی کے بعد بھی نہ سمجھا ہو تو وہ بدستور خطرہ یہی رہے گا، کہ ڈان لیکس نے اتنے سبق دیئے ہیں کہ اسے نہ سمجھنا سیکورٹی بریچ جیسے ڈیزاسٹر کے بعد ڈیزاسٹر ہو گا جو پہلے ہی اس موضوع پر ایک نہیں کتنے ہی ہو گئے۔ سیکورٹی ہی نہیں، گورننس، سیاست اور آزادی صحافت کے حوالے سے ہی نہیں اور بھی کئی۔ نہ جانے کتنے سمجھ پائے کہ باہمی طے شدہ معاملات جو بمطابق صورتحال طے ہونے ہی چاہئے تھے ان کے طے ہونے پر آئین و قانون کی مطلوب پیروی بھی قربان ہوئی ہے یہ قربانی ان کے لئے سبق تو نہیں بنے گی جنہیں صرف اپنی سیاسی برتری ہی سول برتری نظر آتی ہے ’’سول‘‘ کا معاملہ برسوں سے متنازع چلا آ رہا ہے کہ ’’سول‘‘ کے نام پر اپنی بالادستی کے متمنی، آئین کی بالادستی اور یکساں نفاذ قانون کی حقیقت کو جانتے ہیں ضروری سمجھتے ہیں نہ اپنی گورننس میں اسے اختیار کرتے ہیں۔ زیر بحث موضوع پر کوئی بیرونی اسٹیک ہولڈر نظریں نہگاڑھے ہوتا تو اس پر ابلاغی سائنس، انتظامی علوم، سیکورٹی اور جمہوریت کے ایپلائیڈ نالج کی روشنی میں لیکس سے آج تک کے حوالے فالو اپ پر اچھے وولیم کی کتاب تحریر ہو سکتی ہے، سبق یہ بنتا ہے کہ بوجوہ نہ بھی تحریر کی جائے تو یہ صورتحال کے کتنے ہی پہلوئوں کی شکل میں موجود تو ہے، جتنا پڑھنے اور سمجھنے کی کپیٹسی ہے، وہ سبق تو پڑھ اور سمجھ لئے جائیں پڑھ و سمجھ کر اسے یاد رکھا جائے اور رکھ کر اسے اپنے فرائض کی ادائیگی اور گورکھ دھندے میں بھی کام میں لایا جائے۔
جیسا کہ ابتداء میں عرض کیا زیر بحث موضوع پر جتنی مٹی ڈالی جا سکتی تھی ڈال دی گئی، جیسے ڈالی جا سکتی تھی، ویسے ہی ڈال دی گئی، لیکن اس کے کونے کھدے پھر بھی نہ چھپ سکے نہ چھپیں گے، تاہم انہیں قدرے مدھم ضرور کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ طے شدہ معاملات کو ممکنہ حد تک مبنی بر انصاف کر دیا جائے۔ جب وسیع تر ملکی مفاد میں بڑے بڑے ادارے اور مناصب اپنی جائز انا پر بھی نہیں اڑے تو وہ اس سے بھی اطمینان حاصل نہ کریں کہ انہیں پریشان کرنے میں ’’کچھ تو سزا وار ٹھہرے‘‘ کہ انہوں نے وہ سزا پائی جس کا جرم بھی متنازع ہے کہ ہوا بھی کہ نہیں اور اگر سرزد ہوا بھی تو کتنا اور معاونین اتنی ہی سزا کے مستحق تھے جتنی ملی؟
اسکینڈل کے نتیجے میں جو تین سزاوار ٹھہرے، ان کے لئے یہ کیا کم سزا کہ بڑی ہائی فری کوئینسی پر ان کے لئے قربانی کے الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں جو ناقابل پہنچ اور لیکن احتیاط سے زیر بحث مشکوک ذریعہ ہے اپنی ’’بلندی‘‘ اور اعلیٰ معاشرتی اقدار کے تقدس کے باعث بڑے بڑے منہ پھٹوں کے لئے قابل احترام ہے، اس کے مقابل بزرگ سزا واروں کا بھی تو کوئی پاس کیا جائے۔ سول کی بالادستی کا چرچا کیا جا رہا ہے تو آئندہ آئین کی بالا دستی کے لازمے اور ضرورت کو بھی تو کھل کر واضح ہونا چاہئے بلکہ بلیک اینڈ وائٹ میں حساب کتاب۔ قانون کے یکساں نفاذ سے کب تک اور کسی جواز کے ساتھ نظریں چرائی جائیں گی، جبکہ ملکی سیاسی ابلاغ میں اس کی نشاندہی اس پر تنقید اور اس بدترین ناانصافی پر تواتر سے احتجاج کی مکمل جرأت اور شعور کی معاونت سے جگہ بنتی جا رہی ہے۔ ایسے میں اس قومی ضرورت کی جزوی یا وقتی قربانی قابل قبول بنا دی گئی ہے تو اس تھوڑے میں اور تھوڑا اضافہ کر کے بزرگ سزا یافتگان کے ذریعہ معاش اور حصول آسودگی کی مجبوریوں کو بھی تسلیم کر کے انہیں باہمی طور پر طے شدہ معاملات کے دائرے میں لے آیا جائے، اس ’’یکساں انصاف‘‘ جیسے کمیشن کی سفارشات میں تو اہمیت نہ دی گئی، (رپورٹ تو سامنے نہیں آئی خبروں کے مطابق تو ایسا ہی ہوا ہے) یہ درست ہے تو بزرگوں کی مجبوری کی خطائوں سے ہی سزا اور انجام کا اتمام حجت کیوں ہو؟ جب فراغدلی سے معاملات کو طے کرنا ہی ٹھہرا ہے تو یہ سزا جسے قربانی کے نام سے منسوب کر کے سزا کو اور بڑھایا جا رہا ہے کیوں نہ ختم کر دی جائے، اس سے خود کو ’’جھوٹی تسلی‘‘ بھی ختم ہو گی، سب کے لئے قانون کا یکساں نفاذ کی راہ تو نکلے گی تو زیادہ تسلی ہونی چاہئے جس کی برکت سے صورتحال حقیقی معنوں میں سنبھلنے میں مدد ملے گی۔
ویسے تو ذمہ دارانہ طرز عمل اگر آزادی صحافت کا لازمہ نہ ہو نہ سینے میں پاکستان کی عزت و توقیر پر آنچ آنے کا دھڑکا تو ڈان لیکس اور اس کے وقتی انجام پر وہ کچھ لکھا جا سکتا ہے کہ کھلنڈرے کہیں نہ ٹھہریں۔ اب ٹھہرنے کے لئے ڈان لیکس کے نتائج پر نہ اترانے کی گنجائش ہے نہ پروپیگنڈے کی۔ فقط سبق پڑھنے اور سیکھنے کی۔ وما علینا الا البلاغ۔



.
تازہ ترین