• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سول عسکری قیادت کے درمیان جمی برف پگھل چکی ہے۔وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرنیوالی ٹوئٹ واپس لے لی گئی ہے۔ڈان لیکس سے متعلق تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوچکے ہیں۔آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے بڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی بالادستی کو تسلیم کروایا ہے۔عسکری قیادت کے اس اقدام سے پوری دنیا میں پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔اداروں کا غلطی کرنا اورپھر احساس ہونے پر اسے درست کرنا مضبوط پاکستان کی وجہ سے ممکن ہورہا ہے۔اپنی غلطی کو ماننے سے کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوجاتا بلکہ اس سے ادارے مزید مضبوط ہوتے ہیں۔فوج کی جانب سے ٹوئٹس واپس لئے جانے پر تحریک انصاف کے دوست بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نامناسب زبان کا استعمال کیا جارہا ہے۔یہ بہرحال مناسب طرز عمل نہیں ہے۔
کاش ماضی میں وزیراعظم اور چیف جسٹس صاحب کے خلاف چلنے والی توہین آمیز مہم کو بے دردی سے کچلا گیا ہوتا تو شاید آج ایسا نہ ہوتا۔قارئین جانتے ہیں کہ سول عسکری تعلقات کے حوالے سے ہمیشہ لکھتا رہا ہوں۔سویلین بالادستی کا بڑا حامی ہوں اور اداروں کے سیاسی کردار کا شدید مخالف ہوں۔دھرنوں کے ادوار ہوں یا پھر عسکری قیادت کی تبدیلی،اس خاکسار کے کالم آج بھی موجودہیں۔ایسے نازک دنوں میں بھی جمہوریت کا حامی رہاجب تمام ارباب و دانش رخصتی کی تاریخیں دے چکے تھے اور امپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر تھے۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی کسی صورت برداشت نہیں ہے کہ کوئی اداروں کے بارے میں ہرزہ سرائی کرے اور خاموش رہاجائے۔فوج اور حساس ادارے ہمارے اپنے ہیں ۔ بہتری کیلئے مثبت تنقید جائز ہے مگر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ’’تبدیلی‘‘ کے نشے میں دھت ہوکر اوٹ پٹانگ بولتارہے اور کوئی روکنے والا بھی نہ ہو۔
ڈان لیکس کے حوالے سے وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے بعد پاک فوج کے ترجمان نے اس پر تفصیلی ٹوئٹس کئے۔ ایک ٹوئٹ میں کہا گیا کہ نوٹیفکیشن نامکمل ہے ،اسلئے مسترد کیا جاتا ہے۔جس کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد میں فاصلے بڑھنا شروع ہوگئے۔وزیراعظم کے قریبی دوستوں نے رائیونڈ بیٹھک کے دوران حکمت سے معاملات حل کرنے کا مشورہ دیاتو آرمی چیف کو بھی افہام و تفہیم سے اس معاملے سے نکلنے کا کہا گیا۔جس ٹوئٹ کے بعد دوریاں پیدا ہوئی تھیں تو اگر غور کریں وہ ٹوئٹ نوازشریف کیخلاف نہیں تھا ،بلکہ ملک کے وزیراعظم یعنی چیف ایگزیکٹو کے حوالے سے تھا۔انتظامی طور پرملک کی عدلیہ اور فوج دونوں اس چیف ایگزیکٹوکے ماتحت ہیں۔اگر ادارے نے معاملات کو سلجھانے اور اپنے چیف ایگزیکٹو کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے ٹوئٹ واپس لئے تو اس پر داد دینی چاہئے۔لیکن بدقسمتی ہے کہ کچھ لوگوں سے مضبوط پاکستان برداشت نہیں ہوتا۔ ماضی میں جب آصف زرداری صدر تھے اور انہیں کوئی گالی دیتا تھا تو میں ہمیشہ کہتا تھا کہ یہ آپ زرداری کو نہیں بلکہ صدر پاکستان کو گالی دے رہے ہیں اور یہ مناسب بات نہیں ہے۔آج اگر کوئی کسی فرد کے حوالے سے نامناسب زبان کا استعمال کرتا ہے اور وہ فرد اس وقت ایک ادارے کا سربراہ ہے تو یہ اس فرد کو نہیں اس ادارے کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔لیکن اس کیساتھ ساتھ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ یہ سلسلہ اب رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
ماضی میں چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے سے مہم چلائی گئی،ایک سابق چیف جسٹس او رایک جج کے حوالے سے بھی اس قسم کی پوسٹ لگائی گئیں۔ملک کے وزیراعظم اور صدر پاکستان کیخلاف پست زبان کا استعمال اور گالی دینا تو معمول بن چکا ہے۔اگر ماضی میں بالا مہم چلانے والے عناصر کا بندوبست کیا گیا ہوتا تو شاید آج اتنی جرات نہ کی جاتی۔بہر حا ل اب بھی دیر نہیں ہوئی۔کسی بھی ادارے کے سربراہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن بدتمیزی اور اختلاف رائے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان کو بھی کمیشن یا کمیٹی بنانے کے بجائے براہ راست ایکشن کرنا ہوگا۔وگرنہ وہ وقت دور نہیں جب اداروں کا تقدس اور بھرم پاش پاش ہوچکا ہوگا۔باقی بات رہی آرمی چیف کے احکامات کے بعد ٹوئٹس واپس لینے کی ۔یا د رکھیں کہ آرمی چیف کی جو عزت اور طاقت ہے وہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔جنرل قمر باجوہ نے اگر اپنے اس اقدام سے اداروں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمی کو دور کیا ہے اور سویلین بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے تو بہت بڑے ظرف کی بات ہے۔جو لوگ آج شاید آرمی چیف ،ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے حوالے سے مہم چلا کر اداروں میں دوبارہ غلط فہمی پیدا کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو یاد رکھیں یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔تاریخ شاہد ہے کہ آج ایوب خان، یحییٰ خان،ضیا الحق اور مشرف کے ذکر پر آنکھیں جھکتی ہی ہیں،کبھی سر فخر سے بلند نہیں ہوتے ۔ لیکن جنرل قمر باجوہ نے جو اقدام اٹھایا ہے ،اس سے تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے ہیں۔ملکی تاریخ میں جمہوریت کی مضبوطی اور سویلین بالادستی کا جب بھی ذکر کیا جائے گا ،جنرل قمر باجوہ کے اس اقدام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔آج آرمی چیف جنرل قمر باجودصاحب کے اس فیصلے کی وجہ سے پوری دنیا کے اخبارات،ٹی وی چینلز پاکستان کی تعریف کررہے ہیں۔صرف ایک ٹوئٹ کی اہمیت یہ تھی کہ فوراََ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے اضافہ ہوا،ڈالر کی قیمت نیچے آئی۔اگر اس جگہ عمران خان یا کوئی اور بھی ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا تو اس سے اس کی عزت میں اضافہ ہوتا۔مسلم لیگ ن سے اختلافات رکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جنرل قمر باجوہ کے اس اقدام سے ملک کے چیف ایگزیکٹو کا وقار بحال ہوا ہے۔کل کوئی اور شخص بھی ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوسکتا ہے۔اسلئے احتیاط سے کام لیں اور ملکی اداروں کو ذاتی عناد کی بھینٹ مت چڑھائیں،وگرنہ داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں…



.
تازہ ترین