• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدل و انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک عدل کا حصول بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ریاستی اداروں پر اعتماد کرنے کی بجائے خود قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ روز اس کا ایک مظاہرہ مانسہرہ میں ہوا جہاں ایک ملزم کو مشتعل ہجوم نے ڈنڈے اور پتھر مار کر ہلاک کر دیا۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران حب، چترال اور مردان میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن سے نظامِ انصاف کی کمزوری عیاں ہوتی ہے تاہم ان واقعات کی ذمہ داری محض ایک شعبہ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ عدل کے کمیاب ہونے کی ایک بڑی وجہ قوانین کا غیر موثر اور فرسودہ ہونا ہے۔ ہمارانظامِ انصاف آج بھی 1860ء میں تیار کئے گئے مجموعہ تعزیرات پر انحصار کئے ہوئے ہے تاہم اب اس میں تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہفتہ کے روز نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے مشاورتی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے تسلیم کیا کہ یہ تاثر ہے کہ عام آدمی کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں جلد اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا کر اس تاثر کو ختم کر سکتی ہیں ،عدلیہ کی ساکھ کو مضبوط بنا نے کیلئے قوانین میں موجودسقم ختم کرنا ہوں گے جبکہ انصاف کی جلد فراہمی کیلئے قوانین کی ترقی اور اصلاح نہایت ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے آئندہ اجلاس میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے خاتمہ کیلئے تجاویز بھی طلب کی ہیں جبکہ اجلاس کے دوران اعلیٰ عدالتوں میں سمندر پار پاکستانیوں کی شکایات کی داد رسی کیلئے شکایات سیل قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا جو ای میل کے ذریعے شکایات وصول کرے گا۔نظامِ انصاف کی خامیاں دور کرنے کیلئے حکومت کو بھی عدلیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا اور عدلیہ سے منسلک دوسرے اداروں بالخصوص پولیس اور پراسیکیوشن پر توجہ دینی ہوگی تاکہ عام آدمی کی انصاف تک رسائی کو آسان تر بنایا جا سکے۔

.
تازہ ترین