• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ لوگ بات کرنے سے پہلے سوچتے تک نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں مثلاً زرداری صاحب نے عوام کی طرف جھوٹی چمیاں ہوا میں چھالتے ہوئے فرمایا ’’ہمیں فخر ہے کہ ہم نے بی بی کے نام پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کارڈ بانٹے‘‘ اس توہین آمیز جملے کا سلیس زبان میں عوامی ترجمہ یہ ہے کہ ’’ہم نے بی بی کے نام پر عوام میں خیرات بانٹی‘‘ خدا کا خوف کریںکہ اول تو یہ رویہ ہی غلط ہے۔ لوگوں کو روپے نہیں، روپے کمانے کی استعداد اورصلاحیت دو، انہیں اس علم اور ہنر سے آراستہ کرو کہ وہ تمہارے ہاتھوں کی طرف دیکھنے کی بجائے خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں لیکن شاید یہ ہمارے سیاسی مافیاز کی حکمت عملی کےخلاف ہے۔ یہ عوام کو خودکفیل دیکھنا ہی نہیں چاہتے اوردوسری بات یہ کہ اگر دے بھی رہے ہو تو کون سا احسان کررہے ہو؟ یہ ’’سخاوت‘‘ تم ذاتی جیب سے نہیں کررہے بلکہ عوام کی جیبوں سے نکال کر عوام میں بانٹ رہے ہو تو اس میں فخر والی کون سی بات ہے؟اسی طرح پچھلے دنوں ہمارے پاناما فیم وزیراعظم نےایک جلسۂ عام میں سرعام کہہ دیا ’’لوگو! مانگو کیا مانگتے ہو؟‘‘ میاں صاحب کے اندر کا عالم پناہ، ظل سبحانی اور مہابلی پھدک کے باہر نکل آیا تو میں کانپ کے رہ گیا۔ ’’یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں‘‘ والا مصرع یاد آگیا۔ وہ تو اچھا ہوا میاں صاحب کو فوراً احساس ہوگیا کہ جوش خطابت میں بونگی مار بیٹھے ہیں سو فوراً تصحیح کرلی کہ ’’خدا سے مانگو، خدا دیتا ہے‘‘ لیکن سمجھنے والوں کیلئے مائینڈ سیٹ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ یہ لوگ اندر سے خود کو مشکل کشا ہی سمجھتے ہیں۔اسی طرح ابھی ایک دن پہلے مولانا فضل الرحمٰن نے عجیب بڑھک دے ماری ہے کہ ’’کوئی مائی کا لعل فاٹا کے عوام کا سودا نہیں کرسکتا۔‘‘ سمجھ نہیں آتی کہ یہ ایک طرف تو جھوٹی جمہوریت کے استحکام کا راگ الاپتے ہیں، دوسری طرف لہجے مکمل طور پر آمرانہ۔ بندہ پوچھے بھائی! کوئی مائی کا لعل یہ سوداگری کر ہی نہیں سکتا۔ جو کرے گی تمہاری چہیتی لاڈلی پارلیمان ہی کرے گی تو اتنے ہیجان طوفان کی کیا ضرورت ہے؟یہ جو چنڈال چوکڑی اور خلال گروپ ہے، اس کا بھی جواب نہیں۔ کہتے ہیں عمران خان سی پیک میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جیسے سی پیک نہیں 70سی سی موٹر سائیکل یا پرانے ماڈل کی 800 سی سی گاڑی ہو جس کے رستے میں رکاوٹ ڈالنا اتنا ہی آسان ہے اور پھر عمران اس میں رکاوٹ ڈالے گا؟ گزشتہ اتوار کسی سنڈے میگزین میں عظیم کرکٹر ویون رچرڈ کی آپ بیتی سے کچھ اقتباسات شائع کئے گئے تھے جس میں رچرڈ نے عمران خان کی وطن پرستی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب عمران کا سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا لیکن خوشامد اور چاپلوسی بھی انتہا پسندی کی طرح اندھی ہوتی ہے۔ جم جم جھوٹ بولو لیکن بات میں کچھ تو دم ہونا چاہئے لیکن ہماری سیاست میں تو کچھ بولنے سے پہلے کچھ سوچنے کا رواج ہی نہیں ہے لیکن ایک بات ماننی پڑے گی کہ چنڈال چوکڑی رونق خوب لگاتی ہے۔ پچھلے دنوں ان میں سے ایک، دھمال چوہدری نے کہا ....’’ہم نے تو الزامات کا جواب دے دیا، اب عمران خان کی باری ہے۔‘‘ اس بیان میں ’’ہم‘‘ کا جواب نہیں۔ اس ’’ہم‘‘ پر مجھے وہ ننھا منا کیوٹ سا طاعون فیم جانور یاد آگیا جو ہاتھی کی کمر پر جاگنگ میں مصروف تھا کہ ہاتھی لکڑی کے پل پر سے گزرنے لگا۔ چوبی پل دیو قامت ہاتھی کے وزن سے چرچرانے اور لرزنے لگا تو وہ ننھا منا کیوٹ سا جانور ہاتھی کی دم سے کانوں کی طر ف بھاگا اورپھر ہاتھی کے کان میں گھس کر چیخا .....’’دیکھو دیکھو تمہارے اور میرے یعنی ’’ہم‘‘ دونوں کے وزن سے یہ پل کس بری طرح کانپ رہا ہے‘ ان بیچاروں کا ’’ہم‘‘ بھی ایسا ہے۔اک اور بات جو آج تک کم از کم مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وزیراعظم کی ’’دفاعی ٹیم‘‘ کی ان کے ساتھ وابستگی کی عمر جمعہ جمعہ 8دن بھی نہیں اور کل تک یہ پرویز مشرف کے جوتوں کے تلوے، تسمے یا ڈور میٹ تھے اور یہی زبانیں غریب الوطن نوازشریف کی جانب لپکا کرتی تھیں تو یہ کس بنیاد، بل بوتے پر اتنی مختصر سی رفاقت کے بعد نوازشریف کا دفاع کرتے ہیں؟ کوئی سینئر آدمی، پرانا رفیق یا ساتھی وزیراعظم کا غلط یا صحیح دفاع کرے تو کم از کم کوالیفائی تو کرتا ہے کہ پندرہ بیس پچیس تیس سال سے ساتھ ہے لیکن یہ چنڈال چوکڑی تو اس ٹرم میں ہی وزیراعظم کے ساتھ نتھی ہوئی یا چپکی ہے اور کیریکٹر؟ الامان الحفیظ کہ نوازشریف زیر عتاب تھا تو یہ اس پر ہذیانی عذاب بن کر نازل ہوتے اور اب؟ زندگی کے کچھ ادب آداب ہوتے ہیں۔ میں جلاوطنی سے پہلے بھی نوازشریف سٹائل سیاست کا نقاد تھا، جلاوطنی ختم ہونے کے بعد بھی ہوں لیکن جلاوطنی کے دوران مجال ہے جو کبھی ایک لفظ ایسا لکھا ہو جس سے ان میںسے کسی کی دل آزاری ہوسکتی ہو بلکہ جب لکھا، ہمدردی اور دردمندی سے لکھا لیکن نہیں.....جنہیں زندگی کے بنیادی آداب سے ہی واقفیت نہ ہو، صحیح خطوط پر تربیت نہ ہو، ان سے توقع رکھنا کہ بولنے سے پہلے کچھ سوچ بھی لیں گے..... حماقت ہے اور میں اسی حماقت کا ارتکاب کررہا ہوں اور اعتراف بھی۔



.
تازہ ترین