• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک طویل عرصے بعد پاکستان کی قومی ائیرلائن میں سفر کرنے کا موقع ملاخاص طور پر ان اطلاعات کے بعد کہ پی آئی اے نے ٹوکیو سے بیجنگ اور پھر اسلام آباد کی فلائٹ کے لئے نئے 777جہاز استعمال کرنا شروع کردیئے تھے جس سے مجموعی طورپر مسافروں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا تھا، میں اس وقت اسلام آباد کیلئے رواں دواں تھا بزنس کلاس میں میرے علاوہ ایک بیس سے بائیس برس کی چینی دوشیزہ بھی محو سفرتھیں، جہاز کے فضامیں بلند ہوتے ہی پی آئی اے کا عملہ انتہائی خوش اخلاقی سے سروس فراہم کرنے میں مصروف ہوگیا۔ ویت نام سے لیز پر لئے گئے اس جہاز کو غیر معیاری کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا، سیٹیں بہت زیادہ استعمال شدہ لگ رہی تھیں، جبکہ جہاز میں نہ سیٹ پر لگی لائٹیں جل پارہی تھیں اور نہ ہی سیٹوں کے ساتھ لگا سائونڈ سسٹم کام کررہا تھا اور نہ ہی آڈیو ویڈیو سروس، جہاز کے عملے نے اپنی مجبوری بیان کرتے ہوئے یہی بتایا کہ جہاز کا چیک اپ انجینئرز کا کام ہوتا ہے ہمارا کا م تو صرف مسافروں کو سروس فراہم کرنا ہے، بہرحال فلائٹ کے ہوا میں بلند ہونے کے کچھ دیر بعد ظہرانے کا اہتمام شروع ہوا، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنے موبائل فون پر کچھ دفتری ای میلز اور اخبارات کے مطالعے میں مصروف ہوگیا کہ اچانک سامنے کا پردہ کھلا ایک شخص بزنس کلاس کیبن میں داخل ہوا، گہرا سانولا رنگ، پی آئی اے کی وردی، جس میں پیٹ کافی آگے تک نکلاہوا، ہلکی ہلکی مونچھوں کے ساتھ موصوف بڑے بارعب انداز میں بزنس کلاس کیبن میں داخل ہوئے صرف دو مسافر اس کیبن میں موجود تھے موصوف نے چینی خاتون جو جہاز کے سیدھے ہاتھ والے کونے میں براجمان تھیں وہاں سے اپنا سفر شروع کیا اور گہری نگاہ اس چینی دوشیزہ پر ڈالی اور پھر گھوم کر میری جانب آئے اپنا چکر مکمل کیا کیبن کا جائزہ لینے کے بعد وہ موصوف واپس جہاز کے کاک پٹ کی جانب چلے گئے مجھے ان کے کپڑوں اور اس پر لگے بیج سے اندازہ ہوچکا تھا کہ موصوف جہاز کے کپتان ہیںجو واک کرنے اور جہاز کے مسافروں کا جائزہ لینے پیچھے کی جانب تشریف لائے تھے کچھ ہی دیر بعد موصوف ایک بار پھر کیبن میں داخل ہوئے اور اس دفعہ وہ چینی دوشیزہ جس کی عمر بیس سے بائیس سال کے درمیان رہی ہوگی کی سیٹ پر رک گئے موصوف نے چینی دوشیزہ سے گفتگو کا آغاز کردیا کافی دیر تک دونوں محو گفتگو رہے اس دوران چینی خاتون کی انگریزی کمزور ہونے کے سبب کپتان صاحب چینی خاتون کو اپنی بات موبائل فون پر لکھ لکھ کر بھی سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، کافی دیر تک گپ شپ جاری رہی جس کے بعد دونوں کے درمیان موبائل فون نمبرز کا بھی تبادلہ ہوا، اس دوران کئی دفعہ ائیر ہوسٹس نے دونوں کی گفتگو میں مخل ہونے کی کوشش کی جسے کپتان صاحب نے کچھ سختی سے رد کرتے ہوئے دوبارہ ڈسٹرب نہ کرنے کے احکامات بھی جاری کردیئے، پندرہ سے بیس منٹ گزارنے کے بعد اب کپتان صاحب واپس کاک پٹ میں جاچکے تھے بیجنگ پہنچنے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے لہذا آرام کی غرض سے بزنس کلا س کیبن کی لائٹس آف کردی گئیں تاکہ مسافر کچھ آرام کرلیں کہ اچانک اس دفعہ کپتان صاحب کا ماتحت فرسٹ آفیسر بزنس کلاس میں داخل ہوا اور چینی دوشیزہ کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ کپتان صاحب آپ کوکاک پٹ میں بلارہے ہیں تاکہ جہاز سے ہوائی منظر دکھا سکیں، چینی دوشیزہ خوشی خوشی کاک پٹ کی جانب روانہ ہوگئی، میں نے آرام کی غرض سے آنکھیں بند کرلیں، دوران سفر نیند نہ آنے کے سبب میں دوبارہ اٹھ کر اخبار کا مطالعہ ہی کررہا تھا کہ اندازہ ہوا کہ ایک گھنٹے سے زائد ہوچکا ہے مذکورہ چینی دوشیزہ تاحال کاک پٹ میں موجود ہے جبکہ فرسٹ آفیسر صاحب باہر ٹہل رہے ہیں، یعنی اس وقت صرف کپتان اور چینی دوشیزہ ہی کاک پٹ میں ہیں اور نہ جانے اب یہ جہاز کیسے چل رہا ہے، میری بے چینی فطری تھی کیونکہ جہاز میں سو سے زائد مسافر سوار تھے جبکہ جاپان میں وفات پاجانے والے پاکستانی شہری کی میت اور ان کے لواحقین بھی جہاز میں سوار تھے، غرض سینکڑوں زندگیاں جس کپتان کے رحم و کرم پر تھیں وہ کاک پٹ میں ایک چینی دوشیزہ کے ساتھ موجود تھے جبکہ دوسرا پائلٹ باہر تھا،یہ مسافروں کی زندگی اور جہاز کی سلامتی کے حوالے سے رونگٹے کھڑے کردینے والی بات تھی، میں نے ایک ائیرہوسٹس کو روک کر معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ کپتان صاحب کا ذاتی معاملہ ہے ہم اس معاملے میں دخل نہیں دے سکتے، جبکہ مذکورہ کپتان انتہائی سخت طبعیت کے آدمی ہیں اسٹاف کو ذلیل کرنے میں منٹ بھی نہیں لگاتے، اب دوسرا پائلٹ بھی کاک پٹ میں داخل ہوگیا لیکن چینی خاتون باہر آنے کا نام نہیں لے رہی تھیں جبکہ کافی دیر سے کپتان صاحب بھی نہ مسافروں اور نہ ہی عملے سے مخاطب ہوئے تھے، کچھ دیر بعد جہاز کے کاک پٹ سے پیغام آیا کہ جہاز بیجنگ کے ہوائی اڈے پر لینڈ کرنے والاہےلہذا تمام مسافر اپنی سیٹ بیلٹس باندھ لیں لیکن چینی دوشیزہ کاک پٹ سے برآمد نہیں ہوئیں، اب کپتان صاحب کا رویہ میرے لیے بھی ناقابل برداشت ہورہا تھا کیونکہ یہ ہماری قومی ائیر لائن ہے ہر روز نقصان میں جانے والی ائیر لائن کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے حکومت عوامی ٹیکس کے پیسوں سے سبسڈی دے رہی تھی، لیکن ہمارے کپتان صاحب نے اس جہاز کو اپنا ذاتی جہاز سمجھ لیا تھا لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کی ویڈیو بنا کر قوم کو کپتان صاحب کی غیر ذمہ داری سے آگاہ کیا جائے، میں نے چینی خاتون کی سیٹ کی ویڈیو بنائی، اب میں انتظار میں تھا کہ کاک پٹ سے چینی خاتون باہر آئیں تو ان کی ویڈیو بھی بنائی جائے اور ان سے بات چیت بھی کی جائے، اب طیارہ لینڈ کرچکا تھا، کافی دیر بعد کاک پٹ کا دروازہ کھلا اور مذکورہ چینی دوشیزہ باہر آئی لیکن شایدکپتان صاحب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ لوگ ان کی غیر ذمہ داری سے آگاہ بھی ہیں اور ناراض بھی انھوں نے چینی خاتون کو واپس کاک پٹ میں بٹھایااور خود باہر آئے وہ مجھے تمام معاملات کی منظر کشی کرتے ہوئے دیکھ چکے تھے لہذا انھوں نے پوری کوشش کی کہ میں ویڈیو نہ بناپائوں کبھی ائیرلائن کا اسٹاف میرے پاس آیا، کبھی ائیر ہوسٹس تو کبھی چینی اسٹاف،تو کبھی پردے بند کیے گئے تو کبھی تین چار افراد میرے اور کاک پٹ کے سامنے کھڑے کردیئے گئے تاکہ کاک پٹ سے چینی دوشیزہ کے نکلنے کی منظر کشی نہ کرسکوں لیکن میں نے تمام رکاوٹوں کے باوجود مذکورہ خاتون کے نکلنے کا منظر ریکارڈ کر لیا جبکہ ان سے بات چیت بھی کی، جہاز میں مجھے سبق سکھانے اور چینی حکام کے حوالے کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں کئی دوستوں کے ذریعے سفارشی فون بھی کرائے گئے لیکن میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ پی آئی اے کو گھر کی لونڈی سمجھنے والی کالی بھیڑوں کو عوام کے سامنے لائوں گا اور اگلے روز جیو نیوز کے ذریعے تمام معاملات قوم کے سامنے تھے، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں معاملے کا نوٹس بھی لیا گیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ طاقت ور کپتان جس کی ڈگری بھی جعلی ہونے کا کیس موجود ہے،سزا سے بچ پاتا ہے یا حکومت اس قومی ادارے کو سدھارنے کیلئے قانون پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔



.
تازہ ترین