• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کا منگل کو آٹھواں دن تھا لیکن حکومت اور ہڑتال کرنے والوں میں کوئی مفاہمت نہیں ہوسکی ۔ گورنر سندھ اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سے ٹرانسپورٹرز کے مذاکرات ناکام رہے۔ اس کے نتیجے میں بندرگاہ پر ہزاروں کنٹینروں کی قطاریں لگ گئیں اور مزید کنٹینروں کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں بچی ہے لہٰذاملکی تاریخ میں پہلی بار جہازوں کو بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے اور کنٹینر اتارنے سے روک دیا گیا ہے۔بندرگاہ پر جہازوں کی طویل قطاریں ہیں اورپینتالیس ارب ڈالر مالیت کا سامان کنٹینروں سے اتارا نہیں جاسکا ہے جبکہ کنٹینروں سے سامان نہ اتارنے پر جرمانے عائد کیے جانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیاہے ۔ تجارتی سرگرمیوں کواس صورت حال سے جتنے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ملک میں رائس ملیں بند ہورہی ہیں، چاول ، پھلوں اور دیگر اشیاء کی برآمد کے آرڈرز منسوخ ہونا شروع ہوگئے ہیں، بتایا گیا ہے کہ ہڑتال مزید جاری رہنے کی صورت میں آم کی برآمد میں پچاس کروڑ روپے یومیہ کا نقصان ہوگا، اس صورت حال کا فائدہ بالواسطہ طور پر بھارت کو پہنچ رہا ہے، رمضان میں اجناس کے بحران کا خدشہ ہے اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ یقینی نظر آرہا ہے۔ تاجر برادری کے مطابق ٹرانسپورٹرز کی اس ہڑتال سے اسے اب تک کم از کم پچاس ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے ۔ جبکہ گزشتہ روز گورنر ہاؤس میں گڈزٹرانسپورٹرز کی مختلف تنظیموں کے مشترکہ وفد سے ملاقات میں ٹرانسپورٹرز کے مسائل تفصیل سے زیر بحث آئے اور گورنر نے ان مسائل کے جلد مثبت حل کی یقین دہانی بھی کرائی تاہم شہر کے تاجروں نے ہڑتال کے جلد از جلد خاتمے کے لیے وزیر اعظم سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ ملکی معیشت کے لیے اس قدر تباہ کن ہڑتال کا اتنی طویل مدت تک جاری رہنا بلاشبہ حکومتی ذمہ داروں کی صلاحیتوں کی کوئی قابل رشک مظاہرہ نہیں۔ اگر یہ معاملہ صوبائی حکومت کے بس سے باہرہے تو وزیر اعظم کو فوری طور پر خود صورت حال کو کنٹرول کرنا اور اس کا مثبت حل نکالنا چاہئے۔

.
تازہ ترین